چیف جسٹس عمرعطابندیال نے قانون کی حکمرانی پاکستان کی خوش حالی کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ ملک کو سب کے لیے یکساں بنانے کی کوشش کر رہی ہے، پارلیمان اور حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے مثر نظام بنائیں۔سپریم کورٹ میں منعقدہ دو روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئیچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت محروم طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مشترکہ کوششوں سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنائے جا سکتی ہے، خوش حال پاکستان کے لیے ضروری ہے عدلیہ تک سب کی مساوی رسائی ہو۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ کو اے ڈی آر طریقہ اختیار کرنا ہوگا، پولیس اور پراسیکیوشن کو اپنی کارکردگی اور باہمی تعاون بہتر بنانا ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نظام انصاف کی بہتری کے لیے عدلیہ اور بار کو جدید قانونی علم اور ٹیکنالوجی سے خود کو متعارف کرانا ضروری ہے، خواتین ہماری آبادی کا 50 فیصد ہیں، جنہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو تمام شعبوں میں بڑا رول دینے کی ضرورت ہیں، خواتین کو بار اور عدلیہ میں نمائندگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے، پوری دنیا کے نظام کی بنیاد میرٹ ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آبادی میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلیاں اور صنفی تفریق انصاف فراہمی میں رکاوٹ بن رہے ہیں، اس لیے ان مسائل کا حل ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسلام کی روح سے مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول کرائی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ٹھیک کہا کہ ہمیں ہماری بھولی ہوئی روایتوں کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ پاکستان کے لیے قانون کی حکمرانی ہی حل ہے، قانون کی حکمرانی کے لیے ہر شخص کی عدالتوں تک رسائی برابری کی بنیاد پر ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی فیصلہ سازی میں شامل کرنا ضروری ہے، خواتین پر تشدد کے واقعات کی فوری طور پر روک تھام کرنا ہو گی۔جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ توقع ہے کانفرنس سے عام آدمی کی انصاف تک رسائی میں بہتری آئے گی، کانفرنس میں شرکت پر سنگاپور اور زیمبیا کے چیف جسٹس صاحبان کا مشکور ہوں۔انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل کا متبادل نظام فوری انصاف کے لیے مددگا ثابت ہوگا، وکلا سائلین کو اے ڈی آر کا مشورہ دیں عدالتوں میں مقدمات کے حتمی فیصلے تک 15 سال لگ جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نظام انصاف میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں دنیا بہت آگے جا چکی ہے، سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں 3 ہزار 300 سے زائد مقدمات کے فیصلے ویڈیو لنک پر کیے گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو لنک سے وکلا اور سائلین کے وقت اور پیسے کی بچت ہوئی، ملک کی تمام عدالتوں کو بذریعہ آٹومیشن سسٹم آپس میں لنک کیا جا رہا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ پولیس اور پراسیکیوشن کو جرائم پر قابو پانے کے لیے مزید تربیت کی ضرورت ہے، ضلعی عدلیہ کو نئی ترامیم سے آگاہی کے لیے تربیتی سیشنز کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان اور حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے مثر نظام بنائیں، ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد قانون کی حکمرانی ہے، ترقی یافتہ ملک تب ہی بنے گا جب سب کی انصاف اور عدلیہ تک رسائی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ فوجداری نظام انصاف میں اسٹیک ہولڈرز باہمی روابط اور استعداد کار بہتر بنائیں، فریقین ہوں یا ادارے سب کے درمیان توازن ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ملک کو سب کے لیے یکساں بنانے کی کوشش کر رہی ہے، عوام اور اداروں کی جانب سے آئین کے احترام سے ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔