پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں مہم ہے، ایک سیاسی مافیا اس کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد بعض اہم امور پر افواج کا مؤقف واضح کرنا ہے، جیسا کہ علم میں ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈا، جھوٹ، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور ان سے منسوب من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس لیے ان معاملات کے پیش نظر ہم تواتر سے پریس کانفرنس کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر ٹیررارزم کی مد میں اس سال سیکیورٹی فورسز نے مجموعی طور پر اب تک 22 ہزار 409 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے، اس دوران 398 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ 112 سے زائد آپریشن افواج پاکستان، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، اس کے دوران انتہائی مطلوب 31 دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، رواں سال 137 افسر اور جوانوں نے ان آپریشن میں جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہداروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے قیمیتی جانیں ملک کی امن و سلامتی پر قربان کی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بڑھتے ہوئے جھوٹ اور پراپیگنڈے کے دوران یہ ضروری ہے کہ ایسی پریس کانفرنس بقاعدگی سے منعقد کریں تاکہ نا صرف کسی بھی صورتحال پر مؤقف کی وضاحت ہوسکے بلکہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی افواہوں اور جھوٹ کا بر وقت سدباب کیا جاسکے۔
پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آپریشن عزم استحکام سے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہے کہ عزم استحکام کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نظر کردیتے ہیں، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے، میں کہوں گا کہ عزم استحکام ایک ہمہ گیر اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم مہم ہے، یہ ملٹری آپریشن نہیں ہے، عزم استحکام کے اوپر 22 جون کو نیشنل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے وزیر اعظم کی زیر صدارت، اس میں وزیر دفاع، نائب وزیر، وزیر انفارمیشن اور متعلقہ وزرا موجود تھے، سارے صوبے کے وزیر اعلی بھی موجود تھے، چیف سیکریٹریز بھی تھے، متعلقہ سوسز چیف بھی موجود تھے، آرمی چیف بھی تھے اس کے بعد سارے متعلقہ افسران بھی تھے، اس اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا اور یہ کنفیوژن شروع ہوگئی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ ایپکس کمیٹی کے فورم نے کاؤنٹر ٹیررازم مہم پر تفصیلی جائزہ لیا اور نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومینز کو دیکھا، اور انہوں نے اس کے نفاذ میں خامیوں کی نشاندہی کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک تفصیلی کاؤنٹر ٹیررازم اسٹریٹجی کی ضرورت ہے، اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک مزید متحرک کاؤنٹر ٹیررازم مہم کی منظوری دی، تو یہ ایک مہم ہے، اور اس مہم کع ہم آپریشن عزم استحکام سے لانچ کریں گے اس میں اتفاق رائے ہوگی، اس میں کوشش کی جائے گی کہ جو کوششیں چل رہی ہیں اس کو مؤثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے گا، ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے گا، اورفورم نے اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی پاکستان کی جنگ ہے، اور یہ ہماری سالمیت کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فورم نے کہا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس میں کون سے آپریشن کی بات ہورہی ہے؟ اور یہی ہے اس ڈاکومنٹ میں، یہ سب کے پاس ہی ہے، اس کے بعد ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن ہورہا ہے، لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، جب یہ بیانیہ بنا تو صرف دو دن بعد 24 جون کو وزیر اعظم آفس ایک اور اعلامیہ جاری کرتا ہے اس میں کہا گیا عزم استحکام کو غلط سمجھا جارہا اور اس کا راہ نجات، ضرب عضب سے غلط موازنہ کیا جارہا ہے، پہلے نو گو ایریاز تھے جہاں ریاست کی رٹ نہیں تھی تو اس لیے اسے ختم کرنے آپریشن کیا گیا، اس وقت نو گو ایریاز نہیں ہیں، اس لیے کوئی بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن نہیں ہورہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عزم استحکام ملتی ڈومین، ملٹی ایجنسی، ہول آف دی سسٹم، نیشنل وژن ہے پاکستان میں استحکام قائم کرنے کے لیے، یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں، اور اس کا مقصد دہشتگردوں اور کریمنل کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، یہ دو دستاویزات ہیں تحریری لیکن پھر بھی عزم استحکام کو متنازع بنایا جارہا ہے، ایک بہت مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ یہ جو مقاصد ہیں وہ پورے نا ہوں، اب وہ یہ کیوں چاہتے ہیں تو اس کے لیے ریوائزڈ ایکشن پلان دیکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو تمام اسٹیک یولڈرز بیٹھے اور نیشنل ایکشن پلان بنایا 21 نکات کا، اس کے اثرات بھی سب نے دیکھے، آخری حکومت میں وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی میں ریوائزڈ نیشل ایکشن پلان 14 نکات والا منظور کیا، اس میں بھی سیاسی اتفاق رائے تھا، کیوں ایک بہت بڑا سیاسی اور غیر قانونی مافیا کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا؟ اس کی پہلی چال یہ ہے کہ اس کو متنازع بنادیں وہ ان کے اندر ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ اگر ان 14 نکات کو دیکھیں تو اس میں جو کائنیٹکس سے متعلق پوائنٹ ہے وہ بہترین طریقے سے ہورہا ہے، جو فوج کی ذمہ داری ہے وہ ہورہی ہے جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہے، تو مسئلہ دیگر نکات میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری سمجھا گیا 2014 اور 2021 میں بھی کہ انسداد دہشتگردی کے محکمے بنائے جائیں، نیکٹا ہر سال ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کی اپ ڈیٹ نکالتی ہے، اس اپ ڈیٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کی اسٹرینتھ 2437 ہے، جو فیلڈ آپریٹرز ہیں وہ 537 ہیں، دہشتگردی وہاں دیکھیں کتنی ہے، بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی تعداد 3438 ہے اور اس میں آپریشنل فیلڈ آپریٹرز 2776 ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں بات کی گئی کہ مدارس کو ریگولیٹ اور رجسٹر کیا جائے، تقریبا 32 ہزار سے زائد مدارس ہیں پاکستان میں، اس میں 16 ہزار ہی رجسٹر ہیں اور 50 فیصد مدارس کا تو پتا نہیں کہ کون چلا رہا ہے؟ کیا یہ کام فوج نے کرنا ہے؟ اینٹی ٹیررسٹ کورٹس بنائے گئے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے، اس وقت نیکٹا کے مطابق اے ٹی سی کورٹس خیبرپختونخوا 13 اور بلوچستان میں 9 ہیں، اتنی زیادہ دہشتگردی ہے کہ ہم اس سال میں 22 ہزار 400 سے زیادہ آپریشن کر چکے لیکن پچھلے پورے سال میں بلوچستان میں صرف 10 کنوکشنز ہوئی ہیں اور خیبر پختونخوا میں 14، ہم 2014 سے کہہ رہے کہ ہم نے کریمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیرر کرائم نیکسس میں دہشتگردی پنپتی ہے اور سب نے فیصلہ کیا کہ اس اپیکترم کو روکنا ہے، یہ غیر قانونی اسپیکٹرم ہر جگہ موجود ہے اور اس میں غیر قانونی معیشت چھپی ہے اور اسی سے دہشتگردی پنپتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ کو مثالیں دے دیتا ہوں، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا پارٹ ہے نا؟ اس میں اربوں کا بزنس ہو رہا ہے نا؟ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، جب ایک ملک میں، کچھ اضلاع میں، کچھ جگہوں میں یہ نارمل ہو کہ بغیر کاغذ کے گاڑی چل سکتی ہے۔
مزید کہا کہ اس کا کوئی پتا نہیں کہ آگے نمبر کیا لگا ہے، اس کے درمیان میں دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، بے نامی پراپرٹیز، بے نامی اکاؤنٹس کیا یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر آپ اس کو برداشت کریں گے تو اس کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کریں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ جو سرحد ہے، افغانستان کے 6 ملکوں کے ساتھ بارڈر لگتے ہیں، پاکستان کے علاوہ تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین، ایران کے ساتھ بھی اس کی سرحد ہے، جو افغانستان میں ترک، تاجک، ازبک بھی رہتے ہیں، لیکن باقی ملکوں کے ساتھ تو وہ پاسپورٹ کے ساتھ جاتے ہیں، نارمل سرحد ہے، ویزہ سسٹم ہے، تو پھر ہماری سرحد پر کیوں تذکرے یا شناختی کارڈ دکھا کر اندر چلے جاؑئیں، اس کو ایک سافٹ بارڈر رکھا ہے، کیونکہ وہ غیرقانونی اسپیکٹرم کو فیسیلٹیٹ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2023 میں ایل سیز کو کم کیا کیونکہ ڈالرز کی قلت تھی، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایکدم سے اربوں ڈالر کے لحاظ سے بڑھ گیا، کیونکہ وہاں جو سامان جاتا ہے، وہ آپ کی مارکیٹوں میں بکتا ہے، بکتا ہے یا نہیں بکتا؟
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے تیل کی اسمگلنگ سے بنائے جاتے ہیں، 50 سے 60 فیصد غیر قانونی سگریٹ بکتے ہیں، اربوں روپے کی اس میں مافیا ہے، ہے یا نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ نارکو دیکھ لیں، ستمبر سے اب تک ہم ایک ہزار ٹن سے زیادہ غیر قانونی منشیات پکڑ چکے ہیں، لیکن کتنی زیادہ مقدار افغانستان سے آرہی ہے، اس میں بھی اربوں روپیہ ہے، تو یہ جو غیرقانونی اسپیکٹرم ہے، اس کی ایک ریکوائرمنٹ ہے، جو سافٹ اسٹیٹ ہے، اور اس کا حل یہ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ہے، یہ نہ صرف دہشتگردی کا جواب ہے، یہ پوری ریاست اور سوسائٹی کو اوپر اٹھاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر آپ غیرقانونی اسپیکٹرم کو کم کریں گے، تو پھر معیشت بہتر نہیں ہوگی؟ یہ صرف دہشت گردی کا علاج تو نہیں ہے، مزید کہا کہ اس میں ذاتی مفادات ہیں، جو اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے اور وہ بہت سارا پیسہ بنا رہے ہیں، اور اگر اس پیسے کا کچھ حصہ وہ اس سافٹ اسٹیٹ کی پائیداری (سسٹین) کرنے کے لیے لگادیں تو یہ برا کاروبار تو نہیں ہے، اور وہ لگاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عزم استحکام ایک مہم ہے صرف دہشتگردی کے لیے نہیں بلکہ یہ پورے ملک کے لیے مفید ہے اور اس کے اسٹیکس بہت ہائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی چمن میں حکومت، ریاست نے کہا کہ ہم اس پر ون ڈاکومنٹ رجیم (پاسپورٹ) لگائیں گے، تو وہاں پر ذاتی مفادات ہیں، چاہے وہ سیاسی ہے یا غیر سیاسی، انہوں نے وہاں پر احتجاج نہیں شروع کر دیا، آپ کے سامنے ہے، ایف سی والوں کو پتھر مارا، انسانی حقوق کی تنظیمیں آگئیں کہ لوگوں کو بٹھا دو، اور ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں اسمگلنگ کرنی ہے اور نیچے جو لوگ اس میں ملوث ہیں، انہیں تو بہت تھوڑا پیسا ملتا ہے، اوپر جو مافیا ہے، وہاں پر بہت اربوں روپے کی رقم جاتی ہے اور وہ لوگ یہاں پیسا نہیں رکھتے اور ڈالروں میں باہر لے جاتے ہیں، اس سے معیشت کو اور نقصان ہوتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ عزم استحکام میں جب کہا گیا کہ ہم نے ٹیرر کرائم نیکسس کو توڑنا ہے، تو وہ مافیا بہت پریشان ہوگی، توکہا گیا کہ جو کچھ بالکل واضح لکھا ہوا ہے، پہلے تو اس کا متنازع بناتے ہیں، کیونکہ اسٹیک بہت بلند ہیں، اس میں کوئی نظریات نہیں ہیں، یہ سب پیسا ہے اور یہ تھوڑا بہت پیسا نہیں ہے، اس کا تھوڑا پیسا میڈیا، سوشل میڈیا میں بھی لگا دیںِ کہ عزم استحکام کے خلاف بولیں اور بتائیں کہ یہ متنازع ہے، اس سافٹ اسٹیٹ کو سسٹین کرنے کے لیے آپ دہشت گردوں کو بھی لگائیں کہ اپنی ایف سی اور فوج کو مصروف رکھو، آپ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی لگائیں، چونکہ ریاست اس کے خلاف کھڑی ہے اور ریاست اس ٹیرر کرائم نیکسس کو، جو کرائم اور دہشت گردی کی بنیاد ہے، اس پر حملہ کرنا شروع ہو گئی ہے، تو اٹھاؤ مسنگ پرسن، چلو امن مارچ کی بات کرو اور اٹیک کرو اپنی فوج، اپنی انٹیلی جنس ایجنسوں، اپنی پولیس اور اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر، یہ بات نہیں کرنی کہ اے ٹی سی کورٹس بنائی جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات نہیں کرنی کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کو مضبوط بنایا جائے، یہ بات نہیں کرنی کہ مدارس کو ریگولیٹ کیا جائے اور ان کی رجسٹریشن کی جائے، جو اس غیر قانونی اسپیکٹرم کے سامنے کھڑا ہے، اس کی نشاندہی کر رہا ہے، اس کو روک رہا ہے، اس کے اوپر اٹیک کر دو، یہ آپ کے سامنے ہے، اسی وجہ سے جو بھی اس کا حصہ ہے اور اسپیکٹرم کی سرپرستی میں شامل ہے، وہ عزم استحکام کے خلاف لگا ہوا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کرتے رہیں گے تو کیا ہوگا؟ دیکھیں، جب یہ پالیسی تھی کہ جو دہشت گرد ریاست کی رٹ کو تسلیم نہیں کریں گے، اس کے آگے کھڑے ہوں گے، تو جو تھری ڈی پالیسی تھی، جس میں ڈائیلاگ، ڈیولپ اور ڈیٹر تھا، اس میں ان لوگوں کو ڈیٹر کرنا تھا جنہوں نے ریاست کے سامنے اپنے سر تسلیم خم نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی شریعت، اپنا قانون، اپنی سوچ نافذ کرنا چاہیں گے، جبکہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی تھی اور ہے کہ کلیئر، ہولڈ، بلڈ، ٹرانسفر۔
انہوں نے کہا کہ فوج تو ایریاز کو کلیئر بھی کر رہی ہے اور کر چکی ہے، ہولڈ کرتی ہے، اس کے بعد صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ بلڈ اور ٹرانسفر کرے، ہم تو کئی جگہوں کوکلیئر کرکے ان کے حوالے کر چکے ہیںِ، اگر آپ انہیں بلڈ نہیں کریں گے اور اس کو لوگوں کو ٹرانسفر نہیں کریں گے تو وہاں پر دہشت گرد دوبارہ آ جائیں گے، اس لیے باقی ادارے بلڈ اور ٹرانسفر کا کام نہیں کریں گے، تو آپ کلیئر اور ہولڈ کے منہوس چکر میں پڑ جائیں گے کہ بس فوج کلیئر کرے اور ہولڈ کرے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ اگر فوج یہی کرتی رہے گی تو وہاں کے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانا اور اس خلاف نفرت پیدا کرنا مزید آسان ہو جائے گا، کیونکہ آپ بلڈ اور ٹرانسفر کرنے کا اپنا کام تو کر نہیں رہے۔
بنوں واقعے میں فوج کے ملوث ہونے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 15 جولائی کو صبح کے وقت دہشتگردوں نے بنوں کینٹ پر حملہ کیا، ہماری فوج نے بھرپور جواب دیا، اور ہمارے 8 جوان شہید ہوئے، ہمارے جوانوں نے ہمت کے ساتھ دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، سپاہی سبحان گرینیڈ کے اوپر گرگیا جان بوجھ کر تاکہ کولیٹریل ڈیمیج نا ہو تو یہ بہادری ہے ہمارے سپاہیوں کی، دہشتگردوں نے وہاں اندھا دھند فائرنگ جس سے معصوم شہری بھی شہید ہوا، اگلے دن بنوں کے ٹریڈرز نے کہا کہ ہم نے امن مارچ کرنا ہے اور جب یہ مارچ ہوا تو کچھ مخصوص منفی عوامل شامل ہوگئے اور جب وہ بلاسٹ ہونے والی روڈ سے گزرے تو انہوں نے ریاست مخالف نعرے لگائے، پتھراؤ کیا، اس میں مسلح لوگ بھی شامل تھے، انہوں نے فائرنگ کی اور ایک عارضی دیوار کو گرایا اور سپلائی ڈیپو کو بھی لوٹا۔
ان کا کہنا تھا جس طرح کہا جارہا ہے کہ نہتے لوگوں پر فائر ہوا تو کیا وہ لوگ آٹا، گھی چوری کر رہے ہوتے اور مارچ کا مرکزی مقام تھا وہان بھی مسلح لوگ شامل ہوگئے اور وہاں بھی جانی نقصان ہوا فائرنگ سے، فوج نے ایس او پی کے تحت ہی کارروائی کی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ جب 9 مئی کا واقعہ ہوا تو ایک مخصوص گروہ، ایک انتشاری ٹولے نے یہ بات کی، کہ فوج نے ان کو روکا کیوں نہیں، ان کو گولی ماردیتے، کیونکہ انہوں نے ان کو گولی نہیں ماری اس کا مطلب یہ خود ان کو لے کر آئے، یہ بیانیہ ہر طرف چلایا گیا، فوج کا سسٹم بہت واضح ہے اور اس کے مطابق کام ہوتا ہے، اگر فوجی تنصیبات پو کوئی حملہ کرتا ہے تو پہلے تنبیہ دی جاتی ہے، اگر پھر بھی آتا ہے تو ہوائی فائر کی جاتی ہے اور پھر آگے کی کارروائی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لیے ہوا کیونکہ آپ کا عدالتی نطام ہے، جو 9 مئی کے منصوبہ ساز ہیں ان کو ڈھیل دے رہا ہے، ان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار، فسطائیت مزید پھیلے گی، یہ احتجاج، یہ لا ایند آرڈر یہ تو صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے فوج کی نہیں، ایک مجموعے میں شرپسند عناصر گھستے ہیں اور لوگوں کو مارتے ہیں تو یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے، یہ نہیں سمجھ آتا کہ سیاسی جماعت اپنی ہی صوبائی حکومت کے خلاف کس بات کا احتجاج کر رہی ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ عوام کا دہشتگردوں کے خلاف احتجاج جائز ہے، ان شہریوں کے لیے جائز ہے جو شہید ہوئے، ڈیرہ اسمعیل خان میں جن بچیوں کو رورل ہیلتھ سینٹر میں دہشتگردوں نے بھون دیا ان کے لیے مارچ کریں۔
بعد ازاں انہوں نے بنوں واقعے کی کچھ ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیں کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر دے دیے گئے، دوسرے ممالک کے زخمی بچوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں کہ بنوں میں بچوں کو مارا گیا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے نور ولی محسود کی مبینہ آڈیو لیک کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ جو آڈیو کال ہے اس میں جو خارجی ولی ہے اس نے کیا کہا وہ صاف صاف سانئی دے رہا ہے، اس نے کہا کہ اسکول، کالج، گھروں کو اڑاؤ پر میرا نام نا آئے، یہ کونسا اسلام ہے جس میں اسکول کالج کو اڑانے کا کہا گیا ہے؟ اس سے ہمارا عزم مضبوط ہوتا ہے کہ عزم استحکام بہت ضروری ہے، ان دہشتگردوں کا اسلام سے تعلق نہیں۔
ٹی ایل پی کے دھرنے پر وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس اور اہم معاملہ ہے، فلسطین کے مسئلے پر فوج اور حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ یہ قتل عام ہے اور ناقابل قبول ہے، فارمیشن کمانڈر اور کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے، پاکستان کے سفیر اقوام متحدہ میں منیر اکرم وہ بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور سب ان کو سراہتے ہیں کہ کیسے انہوں نے مغربی ممالک کے رویے کو بے نقاب کیا، پاکستان نے فلسطین میں کئی ٹن امدادی سامان بھی بھجوایا غزہ میں، یہ دھرنا جو ہوا تو حکومت اور ادارے اس حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس پر پروپیگنڈا ہوگیا کہ اسے فوج نے کروایا۔
انہوں نے کہا کہ فیک نیوز اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا کوئی احتساب بھی نہیں، ایک اور فرنٹ جہاں پر ہنگامہ ہو لیکن اس کو حل کرلیا جائے تو اس پر بھی پروپیگنڈا ہوجاتا ہے، ہماری سوچ بہت منفی ہوگئی ہے۔
آرمی چیف اور ایس آئی ایف سی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور قیادت کے خلاف جو بات چیت ہورہی ہے تو دو حصے ہیں اس کے کہ یہ کیا ہورہااور کیوں ہو رہا ہے؟ یہ ڈیجیٹل دہشتگردی ہے، جس طرح دہشتگرد بم پکرتا ہے تو ڈیجیٹل دہشتگرد جھوٹ، فیک نیوز کے ذریعے اضطراب پھیلا کے اپنی مرضی مسلط کرتا ہے، ان کا تو کبھی پتا بھی نہیں ہوتا، بے نامی اکأنٹ ہوتے ہین کہاں سے تانے بانے مل رہے کچھ نہیں پتا چلتا لیکن دونوں کا ہدف صرف فوج ہے، جو خارجی دہشتگرد ہے وہ بھی اور ڈیجیٹل دہشتگرد بھی فوج کو نشانہ بنا رہا ہے، دونوں ایک جیسا کام کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا خارجی دہشتگرد کو آپریشن کے ذریعے نیوٹرلائز کرتے ہیں اور ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون کے ذریعے روکا جاتا ہے، ہمارے ملک میں فوج کے خلاف بیہودہ بات چیت کی گئی، اس سال اس فیک نیوز پر کتنی کارروائی ہوئیں؟ بجائے اس کے کہ ان کے خلاف قانون آگے بڑھیں ان کو اسپیس دی جاتی ہے، آزادی رائے کے نام پر ان کو ہیرو بنادیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں بہت بڑا حملہ ہوا، سب کے سامنے ہوا، ایک طرف ہمارا خارجی ٹولہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اور دوسری طرف بھارت ہے جو کہ موقع کی طاق میں ہے کہ کب اس کی فوج کمزور ہو تو ہم اپنا کام کریں اگر یہ ہو تا رہا اور ہم نے ریگولیشن کے تحت اس پر کام نہیں کیا تو اسے مزید اسپیس ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت نیپ کی ضرورت ہے، ہم ملک میں دہشتگردی کی اجازت نہیں دے سکتے۔