”میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا کرنے کی کوشش کیجئے کہ یہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائے کہ جو کچھ سنے اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور درست ہو تو عمل کرے۔ اسے دوستوں کے لیے قربانی سکھائے۔ اسے بتایئے کہ اداسی میںکیسے مسکرایا جاتا ہے،اسے بتایئے کہ آنسوؤںمیں کوئی شرم نہیں۔ اسے سمجھائے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میںمت لائے اور خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار رہے ۔
اسے سکھایئے کہ اپنی جسمانی اورذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے بتایئے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر قائم رہے، ڈٹارہے ،آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آیئے مگر پیار اوردلاسہ مت دیجیے ۔ کیونکہ یاد رہے لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔ اسے سیکھنا ہوگا کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے یہ بھی بتائیے کہ ہر غنڈے کے مقابلے میںایک ہیرو بھی ہواکرتا ہے۔ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میںایک دوست ہوا کرتاہے۔ آپ اسے حسد سے دورکردیں۔اگر آپ کرسکیں تواسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بھی بتائیے۔ اس کو یہ سیکھ لینا چاہئے کہ بد معاشوں کامقابلہ کرناسب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔
اگر آپ بتا سکیں تو اسے کتابوں کے سحر کے بارے میں بتایئے ،لیکن اسے اتنا وقت ضرور دیجئے کہ وہ آسمانوں پر اڑنے والے پرندوں کے دائمی راز ،شہد کی مکھیوںکے سورج سے تعلق اورپہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر غور کرسکے۔ اسے بتائیے کہ سکول میںنقل کرکے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ باعزت ہے۔ اسے بتایئے کہ جب سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہے تو اپنے خیالات پر پختہ یقین رکھے”۔