محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی

محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی

پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گائوں میں نیاز اور ریاض نامی دو دوست رہتے ، وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔وہ دونوں پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ کلاس فیلو بھی تھے۔ نیاز بہت محنتی تھا اور ہر جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرتا لیکن اس کے برعکس ریاض کو پڑھائی بالکل دلچسپی نہیں تھی ، وہ صرف والدین کے اصرار پر تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا اور بمشکل پاس ہوتا تھا۔
نیاز اکثر ریاض سے کہتا رہتا تھا دل لگا کر پڑھا کرو تاکہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بڑے آدمی بنو ۔پھر تمہارے پاس اچھی ملازمت ہو گی، بڑی گاڑی ، گھر ہو گا اور تمہارے خدمت کے لیے ملازم ہوں گے۔
لیکن ریاض اس کے جواب میں کہتا مجھے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی کوئی ضرورت نہیں، میں محنت مزدوری اور تجارت وغیرہ کے ذریعے بہت ساری دولت کما کر یہ ساری چیزیں بھی حاصل کر سکتا ہوں، مجھے کیا ضرورت پڑی کہ پڑھائی میں اپنی جان کھپائوں۔
وقت گزرتا رہا ، نیاز نے پڑھائی جاری رکھی جب کہ ریاض نے ساتویں جماعت سے ہی پڑھائی چھوڑ دی ۔ پہلے پہل تو اُسے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوں کہ اُس کے والدکی معقول آمدن تھی جس سے گھر کا خرچ چل رہا تھا۔ پھر ایسا ہوں کہ ایک روز بازار سے واپسی پر تیز رفتار ٹرک کی ٹکر سے موٹر سائیکل پر سوار ریاض کے والد شدید زخمی ہو ئی۔ وہ کافی ماہ تک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے، اس دوران ریاض کے والد کی جمع پونجی کا زیادہ حصے اُن کے علاج معالجے پر خرچ ہو گیا۔ اگرچہ اُن کے زخم تو مندمل ہو گئے لیکن وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
ریاض چونکہ گھر میں بڑا تھا ، اس لیے اب ساری ذمہ داری اُس پر آن پڑی تھی۔ ریاض نے ایک دو جنرل سٹورز پر معاون کے طور پر کام شروع کیا لیکن چند روز بعد ہی اُسے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا تھا ، جس کی بنیادی وجہ اُس کی سستی اور کاہلی اور کام میں دل نہ لگانا تھا ۔
مجبور ہو کر اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک تنور پر ملازمت اختیار کر لی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہاں سے فارغ کر دیاگیا تو اُسے پھر کسی اور نے ملازمت پر نہیں رکھنا ۔ چنانچہ اُس نے اپنے مزاج کے خلاف تھوڑی مشقت سہنے کی عادت ڈالی ۔ جلد ہی اُس نے تنور کا کام سیکھ لیا۔ تنور کا مالک بھی خوش تھا اور وہ اکثر بے فکر ہو کر اِدھر اُدھر نکل جاتا کیونکہ ریاض پیچھے سارا کام سنبھال لیتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ تنور کے مالک کو کسی وجہ سے دوسرے شہر میں منتقل ہونا پڑا اور اُس نے تنور ریاض کے حوالے کر دیا، اب وہ اس کا مالک بن گیا تھا اور اُس نے اپنے ساتھ ایک اور معاون لڑکا رکھ لیا تھا۔
دوسری جانب نیازنے پڑھائی جاری رکھی اور خوب محنت کی اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر جا پہنچا۔ اس عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی اُس کی محنت اور لگن سے امور کی انجام دہی والی عادت برقرار تھی اور کام کے حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہ کرتا تھا۔ اتفاق سے نیاز کی تعیناتی بھی اسی شہر میںہو گئی جہاں ریاض کا تنور تھا۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کے بارے میں لاعلم تھے۔
ایک بار یوں ہوا کہ آٹے اور گیس کی قیمت میں اضافے کے بعد ریاض نے از خود روٹی کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ شہریوں کی جانب سے شکایت پر اُسے گرفتار کر کے ڈپٹی کمشنر کے روبرو پیش کیا گیا۔ جب تنورچی ریاض اور ڈپٹی کمشنر نیاز نے ایک دوسرے کو دیکھا تو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود فوراً ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ ڈی سی صاحب نے پہلے تو اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ریاض پر جرمانے کے علاوہ اُسے تنبیہ کی۔ پھر وہ اُسے علیحدہ کمرے میں لے گیا اور دونوں اپنی بچپن کی یادیں دہرانے لگے۔ ریا ض اپنے دوست نیاز سے کہنے لگا کہ واقعی محنت رائیگاں نہیں جاتی، تم محنت کر کے ایک ایگزیکٹو عہدے پر پہنچ گئے اور میں اپنی کام چوری کے باعث ایک تنورچی ہی بن سکا۔

-- مزید آگے پہنچایے --