سلطان ملک شاہ ایک مرتبہ اصفہان میں جنگل میں شکار کھیل رہا تھا، اس دوران وہاں کسی گاؤں میں قیام ہو۔ اُدھر ایک غریب بیوہ کی گائے تھی، جس کے دودھ سے تین بچوں کی پرورش ہوتی تھی، شاہی آدمیوں نے اس گائے کو ذبح کر کے خوب کباب بنائے۔
غریب بڑھیا کو خبر ہوئی تو وہ بدحواس ہو گئی، شاہی آدمیوں کا مقابلہ کوئی داد و فریاد سننے کو تیار نہ تھا اس پر لاوارث اور ایک غریب عورت، ساری رات اس نے پریشانی میں کاٹی۔صبح ہوئی دل میں خیال آیا کہ کوئی نہیں سنتا تو نہ سہی، کیا بادشاہ بھی نہ سنے گا ؟جس کو خدا نے غریبوں کو ظالموں سے نجات دینے کیلئے اتنی بڑی سلطنت دی ہے۔
بڑھیا نے بادشاہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، معلوم ہوا بادشاہ فلاں راستے سے شکار کو نکلے گا۔ چنانچہ اصفہان کی مشہور نہر کے پل پر جا کر کھڑی ہوگئی، جب سلطان پل پر آیا ،تو بڑھیا نے ہمت اور جرأت سے کام لے کر کہا :
”اے اَلَپ ارسلان کے بیٹے! میرا انصاف اس شہر کے پل پر کرے گا یا پل صراط پر ؟ جو جگہ پسند ہو انتخاب کر لے۔”
بادشاہ کے ہمراہی یہ بے باکی دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے۔ بادشاہ گھوڑے سے اتر پڑا، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس عجیب و غریب اور حیرت انگیز سوال کا اس پر خاص اثر ہوا، اور بڑھیا سے کہا :
”پل صراط کی طاقت نہیں ہے میں اس جگہ فیصلہ کرنا چاہتا ہوں،کہو کیا کہتی ہو؟”
بڑھیا نے اپنا سارا قصہ بیان کیا، بادشاہ نے لشکریوں کی اس نالائق حرکت پر افسوس ظاہر کیا اور ایک گائے کے عوض میں اس کو ستر گائیں دلائیں اور مالا مال کر دیا۔
جب اس بڑھیا نے کہا تمہارے عدل و انصاف سے میں خوش ہوں اور میرا خدا اور رسول خوش ہے تو گھوڑے پر سوار ہوا۔