آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اب کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بنچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کررہا ہے، پانچ رکنی بنچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے۔اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں کل کے بعد کیا ہوا؟ جسٹس منیب اختر کو درخواست کی گئی کہ بنچ میں آئیں، جسٹس منیب نے دوبارہ خط لکھ دیاجس میں اپناپرانا مؤقف دہرایا ہے، میں نے کمیٹی کو جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کی تجویز دی لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کمیٹی اور بنچ دونوں میں شمولیت سے انکار کیا، اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ دوسرے بنچز کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم افغان کو لارجر بنچ میں شامل کیا ہے، اب سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا، اب لارجر بنچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ میں ایک اعتراض اٹھانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ اپنی نشست پر واپس چلے جائیں، ہم اپ کو بعد میں سنیں گے۔کارروائی جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے آج کے اجلاس کے منٹس بھی جاری کئے گئے ہیں، کمیٹی کے منٹس سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیئے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ پر اعتراض اٹھایا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو پہلے دلائل دینے کا حق نہیں ہے، پہلے جس نے نظر ثانی درخواست دی ہے اس کو دلائل دینے کا حق ہے، روسٹرم پر آپ کی ہی بار کے منتخب صدر کھڑے ہیں، کبھی تو جمہوریت پر چل کر دیکھیں۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کر دیا، شہزاد شوکت نے کیس کا پس منظر عدالت کے سامنے بیان کیا اور کہا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 3/184 کی درخواستیں بھی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس پر رائے اور 3/184 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں۔جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا اس وقت عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی آرڈر جاری کیا؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدراتی ریفرنس پر دی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی۔عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ اس وقت صدر کون تھا؟ جس پر شہزاد شوکت نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت عارف علوی صدر تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وہی حکومت بطور حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے آرٹیکل 63 اے عدالت میں پڑھ کر سنا دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟شہزاد شوکت نے کہا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں چار سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں، عدالت نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھیجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟ سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کیلئے کینسر کا لفظ لکھا گیا، کینسر لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا، کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر ارکان نااہل ہو گا، فیصلہ تو اس معاملےکو جماعت کے سربراہ پر چھوڑ رہا ہے، جماعت کے سربراہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو نااہل نہ کرے، جماعت کا سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی نہ تو کیا ہو گا جس پر شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔