چینی صدر شی جن پھنگ، ایک اصلاح پسند رہنما

چینی صدر شی جن پھنگ، ایک اصلاح پسند رہنما

کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی قیادت کا بیجنگ میں 4 روزہ پالیسی اجلاس پیر کو شروع ہوا جس میں چینی صدر شی جن ٌپھنگ کی جانب سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی ترقی کی راہ متعین کرنے کے لئے نئی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی۔
چینی صدر شی نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی 20 ویں مرکزی کمیٹی کے تیسرے مکمل اجلاس کے آغاز پر کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے سیاسی بیورو کی جانب سے کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ انہوں اصلاحات کو مزید وسعت دینے اور چینی جدیدیت کے فروغ کے مسودے کی وضاحت بھی کی۔
موجودہ اجلاس کو اصلاحات پر مبنی دیگر "تیسرے اجلاس” کے برابر سمجھا جاتا ہے، جس میں 1978 کا اجلاس بھی شامل ہے جب ڈینگ شیاؤ پھنگ نے چین میں اصلاحات اور کھلے پن کی مہم شروع کی تھی۔
موجودہ اجلاس سے قبل چینی صدر شی اصلاحات کے فروغ میں مصروف رہے اور ان کوششوں پر زور دیا کہ ذہن اور سماجی پیداواری قوتوں کو آزاد کرکے انہیں فروغ دیا جائے تاکہ سماجی قوت فروغ پاسکے اور چینی جدیدیت کو مضبوط ترغیب اور ادارہ جاتی ضمانتیں مل سکیں۔
اس سے گہری اصلاحات کے ایک نئے دور سے متعلق توقعات بڑھ گئیں اور ان خدشات کو دور کردیا کہ چین میں اصلاحات سست روی کا شکار ہیں یا چینی معیشت اپنی کشش کھورہی ہے۔
چینی صدر شی نے ایک دہائی قبل اعلیٰ منصب سنبھالا تھا اس کے بعد چین ایک نئے دور میں داخل ہوا ملکی اقتصادی قوت اور عالمی وقار مسلسل بڑھا اور اصلاح اس دور کی پہچان بن گئی۔
چین کئی پرانے اور نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اب اپنی اصلاحات کی رفتار تیز کرنے کے لئے ایک اہم دور میں ہے۔
صدر شی نے ملک اور اس کے عوام کے بہتر مستقبل کی تلاش میں جدیدیت کو حقیقت کا روپ اور ملکی ترقی کے مقصد کو وسعت دینے میں اصلاحات اور کھلے پن کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔
انہوں نے جنوری میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے گروپ مطالعہ اجلاس میں اصلاحات کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ چند ہفتے بعد ملک کی اعلیٰ مقننہ اور سیاسی مشاورتی ادارے کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے مختلف شعبوں میں اصلاحات کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر شی نے مئی میں مشرقی صوبے شان ڈونگ کے معائنے میں کہا تھا کہ اصلاحات ترقی کی محرک قوت ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے اصلاحات مزید گہری کرنے سے متعلق کاروباری رہنماؤں اور اسکالرز سے رائے حاصل کرنے کے لئے ایک سمپوزیم بھی طلب کیا تھا۔
اس کے علاوہ صدر شی نے رواں موسم بہار میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے امریکی کاروباری، اسٹریٹجک اور تعلیمی برادری کے ارکان سے کہا تھا کہ چین اصلاحات کو مزید گہرا کرنے کے لیے بڑے اقدامات کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کررہا ہے۔ چین مارکیٹ ، قانون پر اور عالمی کاروباری ماحول کو مستقل بنیادوں پر فروغ دے گا جس سے امریکہ اور دیگر غیر ملکی کاروباری اداروں کو وسیع تر ترقی کے مواقع ملیں گے۔
اصلاحات کے لئے صدر شی کا عزم کبھی کم نہیں ہوا۔
ایک اصلاح پسند کے طور پر صدر شی نے کچھ اہم عالمی شخصیات کو متاثر کیا۔ ستمبر 2006 ء میں اس وقت کے امریکی وزیرخزانہ ہنری پالسن نے چین کا دورہ کیا اور اپنے پہلے پڑاؤ کے طور پر ژے جیانگ کے صدر مقام ہانگ ژو کو منتخب کیا۔ انہوں نے صدر شی کو چین میں اپنی ابتدائی ملاقات کا "بہترین انتخاب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اہداف کو عالمی سطح پر لے جانے کا فن جانتے ہیں۔
صدرشی کی قیادت میں 2013 میں منعقدہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی 18 ویں مرکزی کمیٹی کے تیسرے مکمل اجلاس کو ایک سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے 1978 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی 11 ویں مرکزی کمیٹی کے تیسرے مکمل اجلاس نے اصلاحات کا دور شروع کیا تھا جبکہ 2013 ء میں اصلاحات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اس اجلاس میں صدر شی نے چین میں مزید ترقی کے لیے متعدد چیلنجز کا ذکر کیا جن میں بدعنوانی، غیر پائیدار ترقی اور ماحولیاتی مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان مسائل کا حل اہم اصلاحات کو وسعت دینے سے ممکن ہے۔
فیصلہ سازی کے عمل سے وابستہ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ مشکل اور اہم اصلاحات پر صدر شی نے حتمی فیصلے کئے۔ عہدیدار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صدر شی نے بڑے اصلاحاتی منصوبوں کے ہر مسودے کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور لفظ بہ لفظ ترمیم کی۔
صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 20 دن سے بھی کم مدت میں صدر شی نے پارٹی اور سرکاری عہدیداروں کے کام کا طریقہ کار بہتر بنانے کے لیے "آٹھ نکات ” کی تیاری کی نگرانی کی جس کا مقصد بیوروکریسی میں موجود دیرینہ مسائل جیسے سرکاری مراعات، فضول دعوتوں اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کو ضائع ہونے سے روکنے کا سدباب کرنا تھا۔ اس اقدام کو بعد میں چینی حکمرانی میں "گیم چینجر” کے طور پر سراہا گیا ۔
اسی بنیاد پر صدر شی نے انسداد بدعنوانی کے لئے ایک بے مثال مہم شروع کی انہوں نے کہا کہ انسداد بدعنوانی جنگ "سیاسی ماحولیاتی نظام” کے ساتھ ساتھ "معاشی ماحولیاتی نظام” کی صفائی کے لئے مفید ہے یہ مارکیٹ نظام درست کرنے اور مارکیٹ کو اس مقام پر بحال کرنے کے لئے سازگار ہے۔
انسداد بدعنوانی کے خلاف "صفر برداشت” مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ایک برس میں اس مہم نے مالیات ، اناج کی فراہمی، صحت کی دیکھ بھال، سیمی کنڈکٹر میں ترقی، پیداوار اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں زبردست فعالیت پیدا کی۔
سینکڑوں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں، بینک ایگزیکٹوز اور ہسپتال کے ڈائریکٹرز یہاں تک کہ چینی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر اور مردوں کی قومی فٹبال ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ جیسی شخصیات کے خلاف بھی تحقیقات کرکے انہیں سزائیں دی گئیں۔
صدر شی نے پارٹی میں اصلاحات کی ضرورت کی وکالت کرتے ہوئے ” جامع ترین خود انقلاب” پر زور دیا۔
ان کی زیرقیادت ایک مکمل اورمتحرک از خود پارٹی حکمرانی نظام اور پارٹی ضابطوں کا ایک مضبوط نظام تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے معائنہ نظام بہتر بنایا اور قومی نگران نظام قائم کیا تاکہ اختیارات ادارہ جاتی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
انہوں نے پارٹی اور ریاستی اداروں میں بے مثالی اصلاحات بھی شروع کیں۔
ان کی اصلاحات صرف معاشی تبدیلی تک محدود نہیں رہی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جدیدیت کا جوہر لوگوں کی جدیدیت میں مضمر ہے۔ جبکہ چینی عوام میں "ثقافتی اعتماد اور قومی فخر” کا فروغ اصلاحات کا ایک اہم مقصد بن چکا ہے۔
صدر شی نے اصلاحات میں ایک اہم مقصد کو ہدف بنایا اور چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم نظام برقرار رکھنے، اسے بہتر بنانے ، چینی نظام اور حکمرانی کی صلاحیت کو جدید کرنے کی کوششیں تیز کیں۔
صدرشی نے چین کے نئے ترقیاتی نمونے کی تعمیر میں تیزی لانے میں قیادت کی جس میں مقامی اور عالمی منڈیاں ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں جبکہ اس میں مقامی منڈی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
اس حکمت عملی میں تعاون کے لئے ایک متحد قومی مارکیٹ کی ضرورت تھی جس کے لئے مقامی تحفظ پسندی کا خاتمے اور علاقائی رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
صدر شی کا ایک اور اہم اصلاحاتی قدم چین بین الاقوامی درآمدی نمائش کا انعقاد تھا یہ دنیا کی پہلی قومی سطح کی نمائش ہے جس میں درآمدات بڑھانے پر توجہ دی گئی۔
انہوں نے خدمات میں تجارت سہل بنانے کے لئے بھی ایک میلہ شروع کیا جس میں عالمی صارفین کی مصنوعات کی نمائش کی گئی ہے جو تجارتی آزادی اور معاشی عالمگریت سے متعلق ان کے نظریے کا اظہار ہے۔
انہوں نے چین میں نصف صدی سے زائد عرصے سے رائج "ری ایجوکیشن تھرو لیبر سسٹم” کا خاتمہ کیا، ذاتی آمدن پر ٹیکس رعایت کی حد3 ہزار 500 یوآن سے بڑھاکر 5 ہزار یوآن کردی اور جائیداد کے کاروبار میں ترقی کے لیے عوام پر مبنی یہ اصول وضع کیا کہ ”مکان رہنے کے لئے ہیں، سرمایہ کے لئے نہیں”۔
تقریباً نصف صدی میں ہونے والی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر شی نے نشاندہی کی کہ چین کی اصلاحات اور کھلے پن نے نہ صرف اس کی ترقی کو آگے بڑھایا بلکہ عالمی امن و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈینگ کی وراثت آگے بڑھاتے اور ذمہ داری کے مضبوط احساس کے ساتھ صدر شی چین کو جدیدیت کی راہ پر گامزن کررہے ہیں جو نہ صرف معاشی معجزات اور ترقی کے مواقع پیدا کرتا بلکہ انسانی تہذیب کی ایک نئی شکل بھی تلاش کررہا ہے۔
صدر شی کا کہنا ہے کہ ہماری جدیدیت کا عمل مشکل ترین اور سب سے عظیم ہے۔ یہ ایک بے مثال راستہ ہے، لیکن ہم اس کی تلاش جاری رکھتے ہوئے ہمت سے آگے بڑھیں گے۔

-- مزید آگے پہنچایے --