الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس بنتا ہی نہیں تھا، وفاقی وزیر قانون

الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس بنتا ہی نہیں تھا، وفاقی وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین میں واضح ہے کہ انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں ہونے ہیں، الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس بنتا ہی نہیں تھا۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محمود ڈوگر کیس کی سماعت کے دوران ازخود نوٹس کی سفارش کی گئی جبکہ محمود ڈوگر کا کیس غیر متعلقہ تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے جو آج نکات اُٹھائے اُس پر چیف جسٹس کو اور خاص طور پر دو جج صاحبان کو ضرور سوچنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جسٹس بشیر جہانگیری نے بینظیر کیس میں آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد عدالتی فیصلہ ختم کر دیا، مگر جج ارشد ملک آڈیو کیس سامنے آنے کے بعد ایسا نہیں کیا گیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ اگر کسی وزیراعظم کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کریں گے، جو جج مقدمہ سنے گا وہی مانیٹرنگ جج لگے گا، تو پھر یہ بھڑاس باہر نکلے گی جو مریم نواز نے آج کہا، پاکستانی شہری کا شکوہ کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جسٹس نقوی کے بارے میں آڈیو لیکس آئیں، پھر ملک کی 6 بار کونسلوں نے کہا ہے کہ ان آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے، اس کے بعد اُن کے اثاثوں کا ریفرنس بھی آگیا، ایسے میں اُن کیلئے مناسب یہی تھا کہ وہ ایسے مقدمات سے الگ ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ جن دو ججز نے اپنا ذہن بتا دیا تھا انہیں بینچ میں نہیں ہونا چاہیے، اس معاملے میں سوموٹو بنتا ہی نہیں تھا۔

پروگرام میں بات کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد نے کہا ہے کہ پچھلے 5 برسوں میں ایک خاص جج نے حساس نوعیت کے 73 کیسوں کی سماعت کی جبکہ ایک اور جج نے ایسے صرف 9 کیسز کی سماعت کی، جب ایسا عدم توازن ہوگا تو سوال تو اٹھیں گے۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا کہ خاص کیس کیلئے خاص بینچ بنائیں گے تو انگلیاں تو اٹھیں گی۔

-- مزید آگے پہنچایے --