وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے، یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم اتحادو یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کی طرف سے پیش کردہ تحریک پر ملک میں امن و امان اور دہشت گردی کی صورتحال، اقتصادی پالیسی، جموں و کشمیر کا تنازع، قومی اداروں کی تکریم، چین پاکستان اقتصادی راہداری، آبادی میں تیز رفتار اضافہ، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ملک کی خارجہ پالیسی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ ایجنڈے پر موجود تمام امور اہم ہیں تاہم دہشت گردی اور امن و امان کی صورتحال انتہائی اہم معاملہ ہے۔
انہوں نے قائداعظم کے فرمودات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی فضا جب تک قائم نہیں ہو گی اس وقت تک معاشی اور معاشرتی صورتحال تبدیل نہیں ہو گی، اگر ممکن ہو تو ان کیمرہ سیشن بھی طلب کیا جائے، پہلے بھی واقعات ہوئے جن پر پارلیمنٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہیے، اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ انتہا پسندی دہشت گردی سے جڑا ہوا معاملہ ہے، جب تک یہ مائنڈ سیٹ نہیں بدلے گا، اس وقت تک یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اگر دہشت گردی کو نظریاتی سپورٹ نہ ہوتی تو ننکانہ صاحب کا واقعہ نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں اگر صورتحال بہتر ہوتی تو ملالہ یوسفزئی اس قوت پاکستان میں ہوتی، ہمارے بچوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے، یہ انتہائی اہم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہمیں بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے، یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہم اتحاد، یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے خود کو دھوکہ میں نہیں رکھنا چاہیے، حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنا ہو گا، ہر پاکستانی نفرتوں کی آگ کو ختم کرنا چاہتا ہے، ہم کب اپنے سکولوں اور مدارس میں امن کی ترغیب دیں گے؟ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں نصاب تعلیم کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ہم پارلیمنٹ میں سچ نہیں بولیں گے اس وقت تک فیصلہ نہیں کر سکیں گے، 2010 میں صوبوں کو این ایف سی کے ذریعے وسائل فراہم کئے گئے، صوبوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔