ماہرین کا کہنا ہے کہ پائیدار قومی تمباکو کنٹرول پالیسی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میں روزانہ 466 افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ تمباکو مصنوعات کی تمام نئی اقسام پر فوری پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کی جانب سے پالیسی سازوں کے ساتھ منعقدہ ایک مکالمے میں کیا گیا جس کا مقصد پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کو تمباکو کی وبا سے بچانے کے لیے تمباکو کنٹرول کے سخت اقدامات پر کی ضرورت اجاگر کرنا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اہم قانون سازوں نے اس تقریب میں شرکت کی اور تمباکو پر ٹیکس بڑھانے اور دیگر اقدامات کو لاگو کرنے کی حمایت کی۔ اس موقع پر سابق ٹیکنیکل ہیڈ/ڈائریکٹر ٹوبیکو کنٹرول سیل وزارت صحت ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام نے بتایا کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کی تعداد 31 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں روزانہ 466 افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے کینسر، ذیابیطس، دل کے امراض، فالج اور پھیپھڑوں کی دائمی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 6 سے 15 سال کی عمر کے تقریباً 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ زندگی اور صحت کی دیکھ بھال کے وسائل کے اس نقصان پر قابو پانے کے لیے ٹوبیکو ہیلتھ لیوی بل جو 2019 سے زیر التواء ہے فوری طور پر منظور کیا جانا چاہیئے۔ پالیسی سازوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہیلتھ لیوی بل کو پارلیمنٹ میں فوری طور پر پیش کیا جانا چاہیے اور اسے پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ تمباکو کے استعمال کو کم کرنے اور صحت کی دیکھ بھال کی اسکیموں کے لیے مالیات پیدا کرنے کا ایک پائیدار حل ہے۔ کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے ہیڈ ملک عمران احمد نے بتایا کہ تمباکو کی مصنوعات کی سستی اور آسان دستیابی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں تمباکو نوشی کی اقتصادی لاگت 615.07 بلین روپے ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے لیکن تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کل لاگت کا صرف 20 فیصد ہے۔ سگریٹ پر زیادہ ٹیکس سگریٹ نوشی کے آغاز کو روکتا ہے، سگریٹ کا استعمال کم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال پاکستان نے 2019 کے بعد پہلی بار تمباکو پر ٹیکس بڑھایا گیا تاہم ہم ابھی تک عالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ 30 فیصد اضافے سے بہت دور ہیں۔ پالیسی سازوں نے پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں کے مطابق تمباکو پر ٹیکس میں اضافے اور مہنگائی میں اضافے کے لیے آواز اٹھانے پر اتفاق کیا۔ سی ٹی ایف کی پروگرام کوآرڈینیٹر صوفیہ منصوری نے کہا کہ تمباکو کی صنعت نے نئی مصنوعات (نیکوٹین پاؤچز، ای سگریٹ، اور گرم تمباکو کے آلات) شروع کی ہیں جو کہ نوجوانوں کو پوائنٹ آف سیلز اشتہارات کے ذریعے کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہمارے نوجوان ان کے عادی ہو جائیں، تمام قسم کی نئی مصنوعات پر فوری پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازوں نے اس سلسلے میں سپارک اور اس کے ساتھی اِداروں کو قانون سازی کے اقدامات کے ذریعے مدد کرنے پر اتفاق کیا، سپارک کے پروگرام مینیجر خلیل احمد ڈوگر نے ذکر کہا کہ 2022 میں پاکستانی بچے موسمیاتی تبدیلیوں، وائرل بیماریوں اور مہنگائی کی وجہ سے ناقص غذائیت سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ہم ان کی صحت کو مزید خطرے میں ڈالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک پائیدار تمباکو کنٹرول پالیسی کے نفاذ کے لیے تمام ا سٹیک ہولڈرز کو مل کر ہے تمباکو ہیلتھ لیوی کے نفاذ، ٹیکسیشن اور گرافیکل ہیلتھ وارننگ میں اضافہ، اور تمباکو کی نئی مصنوعات پر پابندی کے لیے کام کرنا ہوگا۔