سیدناعمر فاروق ؓ کا مثالی دور خلافت

سیدناعمر فاروق ؓ کا مثالی دور خلافت

حضرت عمر فاروق کا دور اسلامی تاریخ کا درخشندہ اور بے مثال دور ہے، اس عہد کی کہانیاں تمام مذاہب میں ضرب المثل بن گئی ہیں۔ ایڈورڈ گبن، روسو، ویدرک، برنارڈشا، گاندھی، نہرو اور عیسائی، یہودی، کمیونسٹ سبھی حکمران آپ کے طرزِ زندگی، دستورِ مملکت پر آج تک رطب اللسان ہیں۔جب آپ خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔ اپنے دور خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ معمول کے مطابق رات کو گشت کر رہے تھے معلوم ہوا کہ ایک اعرابی کی بیوی کو درد زہ ہو رہا ہے مگر اس وقت اس کے پاس کوئی عورت موجود نہیں جو اس کی مدد و تیمار داری کر سکے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہیں سے الٹے پائوں گھر آئے اور اپنی اہلیہ سیدہ ام کلثوم کو ساتھ لے کر اس اعرابی کی بیوی کے ہاں لے گئے جنہوں نے کچھ دیر بعد خیمے کے اندر سے باہر کھڑے سیدنا فاروق اعظم سے کہا کہ اے امیرالمومنین!اپنے دوست کو خوش خبری دیں کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی اعرابی کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ امیرالمؤمنین اپنی اہلیہ سمیت رات کو اس کی مدد کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ الغرض یہ کہ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جو سیدنا عمر کے احساس ذمہ داری و خشیت الہی پر دلالت کرتے ہیں۔کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابی ابن کعب، حضرت ابوالدردا، حضرت سعد اور حضرت ابو موسی اشعری وغیرہ جیسے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔
سیدنا فاروق اعظم قریش مکہ کی زائد از دو درجن شاخوں میں سے عدی بن کعب کی اولاد میں سے اپنے بہنوئی اور چچازاد بھائی سعید بن زید کے ساتھ عشرہ مبشرہ کی سعادت وبشارت سے سعاد ت مند ہوئے ، آٹھویں پشت میں رسول مقبول ۖ کے ہم جد بن جاتے ہیں، بخاری شریف میں ہے کہ فاروق اعظم ایک دن ایک بت خانے میں سورہے تھے کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی تو بت کے اندر سے آواز آئی۔اے جلیح ایک فصیح البیان کہتاہے :لا الہ الا اللہ،، یہ آواز سن کر لوگ تو بھاگ گئے مگر میں کھڑا رہا، دوسری بار پھر وہی آواز آئی، اس کے کچھ دن بعد چرچا ہوا کہ یہ نبیۖ ہیں۔ کچھ دنوں بعد نبی اکرم ۖکو حرم کعبہ میں دوران نماز سورة الحاقة پڑھتے سنا، جس میں قیامت اور حشر ونشر کا موثر بیان ہے،دل پر ایک خاص اثر ہوا، فرماتے ہیں اسلام پوری طرح میرے دل میں بیٹھ گیا، مگر اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے بعد سرداران قریش ابوجہل وغیرہ نے دار الندو ہ میں میٹنگ بلائی کہ اس نئے مذہب اور اس میں داخل ہونے والے لوگوں کا کیا کیا جائے؟ طے یہ ہوا کہ داعئی اسلام سرور دو عالم ۖہی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ مگر اس مشکل قرار داد پر عمل کی کیا صورت ہو، ادھر دو دن پہلے باگارہ الہی میں خاتم المعصومین ۖکے مقدس ہاتھ عزت اسلام کے لئے ابن خطاب کی نشاندہی کر چکے تھے، اب خطاب کا بیٹا نہایت درجہ اعتماد کے ساتھ اٹھا اور کہنے لگا یہ بڑا کام میرے ذمہ لگا دو،، سب سرداروں نے بہ نظر تحسین دیکھا اور کہا کہ ہاں اس جبل عزیمت کو سر کرنا تمہارے ہی جیسے جوان کے مقدر میں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اٹھے اور سید الانبیا ۖکے گھر کا رخ کیا مگر چند ہی قدم پر ایک دوسرے نوجوان نعیم بن عبد اللہ نے راستہ بدل دیا۔ عمر! پہلے اپنے گھر کی خبر لو ! تمہارے بہنوئی اور بہن کلمہ توحید پڑھ چکے ہیں،، بہن کے گھر پہنچے ، بہنوئی کو مارا، بہن آڑے آئی اورکہاعمر تو خطاب کا بیٹا ہے تو میں بھی اسی خطاب کی لخت جگر ہوں، ہماری جان جاسکتی ہے ہم ایمان نہیں چھوڑ سکتے،،۔
سیدہ فاطمہ بنت خطاب چند لمحے پہلے سور ةطہ کی تلاوت سیکھ رہی تھیں،ابتدائی آیات تھیں ،سیدنا عمر کی نظر ان آیات مقدسہ پر پڑی تو وہاں لکھا تھا۔ترجمہ: بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الہ، کوئی مالک ومختار، کوئی معبود ومسجود ومقصود نہیں، میری بندگی کرو،،۔ سورہ حدید میں اللہ نے لوہے کی تعریف کی ہے، اگر لوہا خالص ہو تو مقناطیس اسے کھینچ ہی لیتا ہے، نبی ۖکی دعا، بہن کی دعوت اور آیات کریمہ کی گرفت نے ابن خطاب کے دل ودماغ کو کسی دوسرے کا نہ رہنے دیا تھا، قدموں کو اٹھانا محال ہوگیا تھا مگر گرتے پڑتے مدرسہ حق، دار ارقم سید الکونینۖ کے قدموں میں پہنچے، غلامی کا اعلان کیا، سرور دو عالم ۖنے تکبیر بلند فرمائی جس کی تائید میں چالیس نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے، مشرک سرداران قریش کسی خوشخبری کے انتظار میں تھے، ان پر عالم سوگ طاری ہو گیا۔

-- مزید آگے پہنچایے --