ابو_یحیی
ہم ہوا کے نرم و تیز جھونکوں کی مانند آگے بڑھ رہے تھے۔ اس چلنے میں کوئی مشقت نہ تھی بلکہ لطف آرہا تھا۔ نجانے ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا تھا کہ صالح کہنے لگا:
’’عرشِ الٰہی کے سائے میں مامون علاقہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ دیکھو! آگے فرشتوں کا ایک ہجوم نظر آرہا ہے۔ ان کے پیچھے ایک بلند دروازہ ہے۔ یہی اندر داخلے کا دروازہ ہے۔‘‘
میں نے صالح کے کہنے پر سامنے غور سے دیکھا تو واقعی فرشتے اور ان کے پیچھے ایک دروازہ نظر آیا۔ مگر یہ عجیب دروازہ تھا جو کسی دیوار کے بغیر قائم تھا۔ یا شاید دیوار غیر مرئی تھی کیونکہ دروازے کے ساتھ پیچھے کی سمت کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ گویا ایک نظر نہ آنے والا پردہ تھا جس نے دروازے کے پیچھے کے ہر منظر کو ڈھانپ رکھا تھا۔
تاہم اس کی بات سنتے ہی میرے قدم تیز ہوگئے اور فاصلہ تیزی سے گھٹنے لگا۔ دروازہ ابھی دور ہی تھا، مگر فرشتے واضح طور پر نظر آنے لگے تھے۔ یہ انتہائی سخت گیر اور بلند قامت فرشتے تھے جن کے ہاتھ میں آگ کے کوڑے دیکھ کر میں گھبرا گیا۔ میں نے صالح کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اسے روکتے ہوئے کہا:
’’تم غالباً غلط سمت جارہے ہو۔ یہ تو عذاب کے فرشتے لگتے ہیں۔‘‘
’’چلتے رہو۔‘‘، اس نے رُکے بغیر جواب دیا۔
ناچار مجھے بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔ تاہم میں نے اتنا اہتمام کرلیا کہ اس سے دو قدم پیچھے رہ کر چلنے لگا تاکہ اگر پلٹ کر بھاگنے کی نوبت آئے تو میں اِس سے آگے ہی ہوں۔ صالح کو میرے احساسات کا اندازہ ہوچکا تھا۔ اس نے وضاحت کرنی ضروری سمجھی:
’’یہ بے شک عذاب ہی کے فرشتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے اس کی بات درمیان سے اچک کر کہا:
’’اور یہاں اس لیے کھڑے ہیں کہ آگے جانے سے قبل میری پٹائی کرکے میرے گناہ جھاڑیں۔‘‘
وہ میری بات سن کر بے اختیار ہنسنے لگا اور بولا:
’’یاردیکھو اگر پٹائی ہونی ہے تو تمھارا بھاگنا مفید ثابت نہیں ہوگا۔ کوئی شخص ان فرشتوں کی رفتار اور طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ویسے تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ تمھارے لیے یہاںنہیں کھڑے ہیں۔ بلکہ یہ اس لیے کھڑے ہیں کہ خدا کا کوئی مجرم اگر اس سمت آنے کی کوشش کرے، تو اُسے اتنا ماریں کہ وہ دوبارہ اس طرف آنے کی ہمت نہ کرے۔‘‘
ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے دو حصوں میں بٹ کر ہمارے لیے ایک راستہ بنادیا۔ ازراہِ عنایت انہوں نے یہ اہتمام بھی کردیا کہ کوڑوں کو اپنے پیچھے کرلیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہمیں دیکھ کر مسکرائیں گے اور اظہارِ مسرت کریں گے، مگر کوشش کے باوجود میں ان کے چہروں پر کوئی مسکراہٹ تلاش نہ کرسکا۔ صالح کہنے لگا:
’’ان کی موجودگی کا ایک مقصد تمھیں اللہ کی اس نعمت کا احساس دلانا ہے کہ کس قسم کے فرشتوں سے تمھیں بچالیا گیا۔‘‘
بے اختیار میری زبان سے کلمۂ شکر و حمد ادا ہوگیا۔
ان کے بیچ سے گزر کر ہم دروازے کے قریب پہنچے تو وہ خود بخود کھل گیا۔ اس کے کھلتے ہی میری نظروں کے سامنے ایک پرفضا مقام آگیا۔ یہاں سے وہ علاقہ شروع ہورہا تھا جہاں عرشِ الٰہی کی رحمتیں سایہ فگن تھیں۔ روح تک اتر جانے والی ٹھنڈی ہوائیں اور مسحورکن خوشبو مجھے چھونے لگی تھیں۔ ہم دروازے سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دور تک فرشتے قطار در قطارکھڑے تھے۔ ان کے چہرے بے حد دلکش تھے اور اس سے کہیں زیادہ خوبصورت مسکراہٹ ان کے چہروں پر موجود تھی۔ یہ ہاتھ باندھے مؤدب انداز میں کھڑے تھے۔ ہم جیسے ہی ان کے بیچ سے گزرے، دعا و سلام اور خوش آمدید کے الفاظ سے ہمارا خیر مقدم شروع ہوگیا۔ ان کے رویے اور الفاظ کی تاثیر میری روح کی گہرائیو ںمیں اتر رہی تھی اور ان کے وجود سے اٹھنے والی خوشبوئیں میرے احساسات کو سرشار کررہی تھیں۔
یہاں داخل ہوتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن اس وقت میری ساری توجہ فرشتوں اور یہاں کے دلکش ماحول کی طرف تھی اس لیے میں زیادہ توجہ نہیں دے سکا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں اس کیفیت کو بس یہاں کے ماحول کا ایک اثر سمجھا۔
چلتے چلتے مجھے کچھ خیال آیا تو میں نے صالح کے کان میں سرگوشی کی:
’’یار یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ لوگ مجھے کوئی نجات یافتہ شخص مان کر میرا استقبال کررہے ہیں، لیکن یہاں میری ذاتی واقفیت تو کوئی نہیں ہے۔ کیا یہاں تمھارا کوئی واقف ہے؟‘‘
میری بات سن کر صالح ہنستے ہوئے بولا:
’’عبد اللہ! آج ہر شخص اپنی پیشانی سے پہچانا جائے گا کہ وہ کون ہے۔ تمھیں علم نہیں مگر تمھارا پورا پورا تعارف تمھاری پیشانی پر درج ہے۔ تم دیکھتے جاؤ آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘
قطار کے اختتام پر کھڑا ایک وجیہ فرشتہ، جو اپنے انداز سے ان سب کا سردار معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا اور میرا نام لے کر اس نے مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ بہت نرمی اور محبت سے بولا:
’’ہمیشہ باقی رہنے والی کامیابی مبارک ہو!‘‘
میں نے جواب میں شکریہ ادا کیا ہی تھا کہ وہ دوبارہ بولا:
’’کیا آپ آئینہ دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے یہ بات مذاق میں کہی تھی یا سنجیدگی سے۔ کیوں کہ اس وقت آئینہ دیکھنے کی کوئی معقول وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ تاہم اس نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ ایک فرشتے کو اشارہ کیا اور اگلے ہی لمحے میرے سامنے ایک قدِ آدم آئینہ تھا۔ میں نے اس آئینے کو دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ کیونکہ یہ آئینہ نہیں بلکہ ایک انتہائی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور پینٹنگ تھی جس میں ایک خوبصورت نوجوان بلکہ شہزادہ شاہانہ لباس زیب تن کیے کھڑا تھا۔ یہ تصویر کسی بھی اعتبار سے تصویر نہیں لگ رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آئینے کے سامنے کوئی انسان زندہ کھڑا ہوا ہے۔
میں نے اس فرشتے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا:
’’آپ اچھا مذاق کرتے ہیں، مگر پینٹنگ اس سے زیادہ اچھی کرتے ہیں۔ مصور تو آپ ہی معلوم ہوتے ہیں، لیکن اس میں ماڈل کون ہے؟‘‘
فرشتے نے انتہائی سنجیدگی سے میری بات کا جواب دیا:
’’پینٹر تو ’المصور‘ یعنی مالک ذوالجلال ہے۔ البتہ ماڈل آپ ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے صالح کو اشارہ کیا۔ وہ میرے قریب آیا اور میرا سر گھماکر دوبارہ پینٹنگ کی طرف کردیا۔ اس دفعہ پینٹنگ میں اس نوجوان کے ساتھ صالح بھی نظر آرہا تھا۔ میں حیرت سے کبھی صالح کو دیکھتا اور کبھی اس آئینے میں کھڑے دوسرے شخص کو جس کے بارے میں ان دونوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ میں ہی تھا۔
’’مگر یہ میں تو نہیں!‘‘، میں نے بلند آواز سے کہا۔
جواب میں صالح نے یہ مصرعہ پڑھ دیا:
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ میں تو ایک بوڑھا شخص تھا اور جوانی میں بھی کم از کم ایسا نہیں تھا!‘‘
اس دفعہ میری بات کا جواب فرشتے نے دیا:
’’آپ ناممکنات کی دنیا سے ممکنات کی دنیا میں آگئے ہیں۔ آپ انسانوں کی دنیا سے خدا کی دنیا میں آگئے ہیں۔ آج ہر شخص ویسا نہیں دکھائی دے گا جیسا وہ دنیا میں دوسرے انسانوں کو نظر آتا تھا۔ بلکہ آج ہر شخص ویسا نظر آئے گا جیسا وہ اپنے مالک کو نظر آتا تھا۔ اور مالک کی نظر میں انسانوں کی صورت گری ان کے گوشت پوست پر نہیں بلکہ ان کے ایمان و اخلاق اور اعمال کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ آپ اسے دنیا میں جیسے لگتے تھے، ویسا ہی آج اس نے آپ کو بنادیا ہے۔ ویسے یہ عارضی انتظام ہے۔ آپ کی فیصلہ کن شخصیت اس وقت سامنے آئے گی، جب جنت میں آپ کے درجات کا فیصلہ حتمی طور پر ہوگا۔ سرِ دست تو آپ آگے جائیں۔ بہت سے دوسرے لوگ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم آگے کی سمت بڑھ رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی مجھے جس تبدیلی کا احساس ہوا تھا وہ کیا تھی۔ میری چال میں بہت اعتماد تھا۔ شاید یہ آئینے کا اثر تھا کہ اب مجھے یقین آنے لگا تھا کہ ربِّ کعبہ نے مجھے سرفراز کرکے میرے بخت کو ہمیشہ کے لیے جگادیا ہے۔ میری زندگی کے شب و روز اور اس میں پیش آنے والے مسائل اب میرے لیے خواب و خیال ہوچکے تھے۔ پچھلی دنیا کی محرومیاں، صبر اور محنتیں کبھی اس طرح بھی رنگ لائیں گی، مجھے اس کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں ا گلی دنیا کا بہت کچھ تعارف پڑھا تھا، مگر آنکھ جوکچھ دیکھ سکتی، کان سنتے اور حواس محسوس کرسکتے ہیں وہ الفاظ سے شعور تک بہت کم منتقل ہوتا ہے۔ آج جب یہ سب حقائق سامنے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ میں۔ ۔ ۔ مجھے یہ اندازہ تو زندگی ہی میں ہوچکا تھا کہ آخرت کی بازی میں جیت جاؤں گا۔ مگر اس جیت کا مطلب اتنا شاندار ہوگا، اس کا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔
’’تمھیں ابھی پورا ندازہ نہیں ہوا ہے۔‘‘، صالح پتہ نہیں کس طرح میرے خیالات پڑھ رہا تھا۔ اس کے جملے نے مجھے چونکادیا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی:
’’اصل زندگی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ابھی تو تم حشر کے عارضی مرحلے میں ہو۔ اصل زندگی تو درحقیقت جنت میں شروع ہوگی۔ اُس وقت خدا کا بدلہ دیکھنا۔ اُس وقت خدا کو داد دینا۔ سرِ دست تو آگے دیکھو، ہم کہاں کھڑے ہیں۔‘‘
اس کی بات سے مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ماحول سے بالکل لاتعلق ہوکر چل رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھاکر دیکھا۔ ہم اس وقت ایک وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب میدان میں تھے۔ آسمان پر سورج چمک رہا تھا۔ اس میں روشنی تھی پر دھوپ نہ تھی۔ آسمان پر کہیں بادل نہ تھے، مگر زمین پر ہر جگہ سایہ تھا۔ زمین سبز تھی۔ شاید اسی کے اثر سے آسمان نیلگوں کے بجائے سبزی مائل ہورہا تھا۔ میدان کے وسط میں ایک فلک بوس پہاڑ تھا۔ محاورۃً نہیں، حقیقتاً فلک بوس۔ کیونکہ اس کی چوٹی جہاں سے ہم کھڑے دیکھ رہے تھے، آسمان میں پیوست لگ رہی تھی۔ فضا میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی۔ یہ خوشبو ہر اعتبار سے بالکل نئی مگر انتہائی مسحورکن تھی۔ ہماری سماعت ہمیں ان نغموں کا احساس دلارہی تھی جو کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی کے ساتھ چار سو بکھرے ہوئے تھے۔ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ خوشبو اور یہ موسیقی میری ناک اور کان کے راستے سے نہیں بلکہ براہِ راست میرے اعصاب تک پہنچ رہی ہے۔ اس کی تاثیر میں مہک و آہنگ اور سکون و سرور کے عناصر اس خوبصورت تناسب سے یکجا تھے کہ مجھے اپنا وجود تحلیل ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
میں ایک جگہ رک کر کھڑا ہوگیا اور آنکھیں بند کرکے اس ماحول میں گم ہوگیا۔ صالح نے میرا انہماک دیکھ کر کہا:
’’اس پہاڑ کا نام اعراف ہے۔ آؤ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ میں ساتھ ساتھ تمھیں یہاں کی ساری تفصیلات سے آگاہ کرتا رہوں گا۔‘‘
میں جواب دیے بغیر سحر زدہ انداز میں صالح کے ساتھ ہولیا۔ ہم نے دائیں طرف سے اپنا سفر شرو ع کیا۔ ہم کچھ دور ہی چلے تھے کہ پہاڑ کے ایک حصے پر امت آدم لکھا ہوا نظر آیا۔ میں نے صالح سے پوچھا:
’’کیا یہاں آدم علیہ السلام ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ سارے نبی پہاڑ کے اوپر بلند حصے پر موجود ہیں۔ تم دیکھوگے کہ ہر تھوڑی دیر بعد اسی طرح کسی نہ کسی نبی اور اس کی امت کا نام لکھا ہوا نظر آئے گا۔ ہر امت کے نجات یافتہ لوگ۔ ۔ ۔ تمھاری طرح کے نجات یافتہ لوگ۔ ۔ ۔ یہاں آکر جمع ہوں گے۔‘‘، اس نے جواب دیا۔
’’کیا مجھے امت محمدیہ کے کیمپ میں جانا ہوگا؟‘‘، اس پر میں نے اشتیاق سے پوچھا۔
صالح نے نفی میں سر ہلایا اور بولا:
’’ان مقامات پر نجات یافتہ لوگ کھڑے ہوں گے اور روز حشر کے اختتام پر یہیں سے جنت میں جائیں گے۔ تمھیں پہاڑ کے اوپر جانا ہوگا۔ وہاں سارے نبی اور ان کی امتوں میں سے وہ لوگ جمع ہیں جنہوں نے نبیوں کے اتباع میں لوگوں پر حق کی شہادت دی۔ یہ لوگ یہیں سے انسانوں کے بارے میں خدا کا فیصلہ دیکھتے رہیں گے۔اسی جگہ سے انہیں انسانوں پر گواہی دینے کے لیے بلایا جائے گا۔ ہر نامراد شخص جہنم کی طرف اور ہر کامیاب شخص پہاڑ کے نیچے اپنے اپنے نبی کے کیمپ میں آتا جائے گا۔ پھر ہر امت گروہ در گروہ یہیں سے جنت میں جائے گی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے حشر میں ہونے والے ہر فیصلے کو براہِ راست دیکھا جاسکتا ہے۔ جنت و جہنم بھی یہاں سے نظر آتی ہیں۔‘‘
ہم یہ گفتگو کررہے تھے اور ایک ایک کرکے تمام نبیوں کی امت کے مقامات سے گزرتے جارہے تھے۔ اس وقت تک ہر جگہ بہت کم لوگ تھے۔ میں نے صالح سے کہا:
’’شایدا بھی تمام لوگ نہیں آئے۔‘‘
اس نے کہا:
’’نہیں یہ بات نہیں۔ دیگر نبیوں کی امت میں سے نجات یافتہ لوگ ہیں ہی بہت کم۔ زیادہ تر لوگ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور سب سے زیادہ امتِ محمدیہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں کیمپ ابھی تک نہیں آئے۔ لیکن سرِ دست وہاں بھی زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر میں ہوجائیں گے۔ آؤ اب اوپر چلتے ہیں۔ اِس پہاڑ کا چکر تو بہت طویل ہوجائے گا۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے بلند مقامات پر چڑھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ لیکن شاید یہ میری زندگی کی سب سے عجیب بلندی تھی۔ یہ بظاہر بہت بلند اور آسمان تک اونچی تھی۔ مگر یہاں سے ہم زمین کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے چند منزل ہی اوپر کھڑے ہوں۔ نیچے سے جو جگہ ایک چوٹی لگتی تھی وہ ایک ہموار سطح مرتفع تھی۔ تاہم اس ہموار زمین پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بلند و بالا قلعہ نما تعمیرات بنی ہوئی تھیں۔ تاہم ان کے اردگرد کوئی دیوار تھی اور نہ ان میں دروازے ہی موجود تھے۔ اس لیے باہر سے بھی اندر کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ یہاں ہر طرف شاہانہ انداز کے خدم و حشم تھے۔ عالیشان تخت پر تاج پہنے ہوئے انتہائی باوقار ہستیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے اردگرد اسی شان کے لوگ شاہانہ نشستوں پر براجمان تھے۔ میں نے صالح سے ان بلند تعمیرات کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:
’’یہ مختلف انبیا کی عارضی قیام گاہیں ہیں۔ انھی کی بنا پر اس پہاڑ کو اعراف کہا جاتا ہے۔ تم تو جانتے ہو کہ اعراف کا مطلب بلندیوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا:
’’تخت پر بیٹھے ہوئے حضرات انبیاے کرام ہیں۔ اور ان کے اردگرد بیٹھے لوگ ان کی امت کے شہدا اور صدیقین ہیں۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبیوں کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیا کے بعد ان کی دعوت کو آگے پہنچایا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو دنیا میں خدا کے لیے جیے اور اسی کے لیے مرے۔ اسی کے صلے میں یہ لوگ آج اس عزت و سرفرازی سے ہمکنار ہوئے ہیں جس کا مشاہدہ تم اس وقت کررہے ہو۔‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے کہ انبیا علیھم السلام سے میری ملاقات ہوسکے؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’سب سے ملاقات کا وقت تو نہیں لیکن کچھ سے ضرور مل سکتے ہیں۔‘‘
اس نے جواب دیا اور پھر ایک ایک کرکے خدا کے جلیل القدر پیغمبروں سے میری ملاقات کرانی شروع کی۔ وہ پیغمبر جو میرے لیے عظمتوں کا نشان تھے، میں ان سے مل رہا تھا۔ آدم، نوح، ہود، صالح، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، زکریا، یحےیٰ، عیسیٰ اور سب سے بڑھ کر ابو الانبیا سیدنا ابراہیم علیہم السلام۔ سب نے گلے لگاکر اور میری پیشانی پر بوسہ دے کر میرا استقبال کیا اورمجھے مبارکباد دی۔
ان جلیل القدر ہستیوں سے کچھ گفتگو کے بعد ہم آگے روانہ ہوگئے، مگر مجھے دوران گفتگو یہ احساس ہوا تھا کہ سب لوگ ایک نوعیت کے تفکر میں مبتلا ہیں۔ راستے میں صالح سے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا:
’’تمھیں نہیں معلوم اس وقت حشر کے میدان میں کیا قیامت برپا ہے۔ اس وقت ہر نبی پریشان ہے کہ انسانیت کا کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ان انبیا میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی امت عذاب الٰہی کا سامنا کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو معاف کردیں۔ مگر سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ ایسی کوئی دعا کی جاسکتی ہے اور نہ اس کی اجازت ہے۔ لوگ سیکڑوں برس سے خوار و خراب ہورہے ہیں اور سرِدست حساب کتاب شروع ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘
’’سیکڑوں برس؟ کیا مطلب! ہمیں تو اندر آئے ہوئے بمشکل ایک دو گھنٹے گزرے ہوں گے۔‘‘، میں نے چونک کر تعجب سے کہا۔
’’یہ تم سمجھ رہے ہو۔ آج کا دن کامیاب لوگوں کے لیے گھنٹوں کا ہے اور باہر موجود لوگوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا ایک بے حد طویل دن ہے۔ باہر صدیاںگزر گئی ہیں۔ مگر تم ابھی یہ بات نہیں سمجھو گے۔‘‘، اس نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا۔
میں اس کی بات کو ہضم نہیں کرسکا، مگر ظاہر ہے میں جس دنیا میں تھا وہاں سب کچھ ممکن تھا۔ اور نجانے اور کتنی تعجب انگیز باتیں میرے سامنے آنے والی تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صحابہ کرام اور مہاجرین و انصار حلقہ بنائے ادب و احترام سے بیٹھے تھے۔ اُمتِ محمدیہ کے اولین و آخرین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ شمعِ رسالت کے ان پروانوں کے بیچ رسالتمآب سر جھکائے تشریف فرما تھے۔ بظاہر ہر چیز بالکل ٹھیک تھی، مگر میں محسوس کرسکتا تھا کہ یہاں بھی اسی نوعیت کا تفکر پھیلا ہوا تھا جسے میں پیچھے دیکھ آیا تھا۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بارگاہ احدیت میں دعا کررہے ہیں۔ ہمیں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے۔‘‘، صالح پچھلی نشستوں کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
ہم پچھلی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ یہاں سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ آگے کیا ہورہا ہے۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
’’یہ حساب کتاب کب شروع ہوگا؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم۔ کسی کو بھی معلوم نہیں۔‘‘، اس نے جواب دیا۔
اس کی بات سن کر میں خاموش ہوگیا اور نشست کی پشت سے سر ٹکاکر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا کہ صالح کی آواز میرے کان میں آئی:
’’عبد اللہ اٹھو! دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے۔‘‘
اس کی آواز پر میں چونک کر کھڑا ہوگیا۔ سامنے دیکھا تو ایک انتہائی باوقار ہستی میرے سامنے کھڑی تھی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں سے محبت کے آثار جھلک رہے تھے۔ اس سے قبل کہ صالح مزید کچھ کہتا، انھوں نے نرم لہجے میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’مرحبا عبد اللہ! میرا نام ابوبکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے میں تمھیں خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلادیے۔ میں پرجوش انداز میں ان سے بغلگیر ہوگیا۔ معانقے کے بعد وہ مجھے لوگوں سے ذرا دور لے کر ایک نشست پر جابیٹھے۔ میں نے بیٹھتے ہی ان سے دریافت کیا:
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کب مل سکوں گا؟۔‘‘
’’رسول اللہ اس وقت بارگاہ ایزدی میں شکر و دعا میں مصروف ہیں۔ تم ان سے بعد میں مل سکتے ہو۔ اس وقت بتانے کی اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جناب رسالتماب کی یہ دعا قبول ہوگئی ہے کہ لوگوں کا حساب کتاب شروع ہوجائے۔ اس قبولیت کی گھڑی میں تم نے بھی ایک دعا کی تھی۔ تم دوبارہ حشر کے میدان میں جاکر وہاں کا احوال دیکھنا چاہتے تھے؟ تمھیں اس کی اجازت مل گئی ہے۔ حساب کتاب کچھ دیر بعد شروع ہوگا۔ تم اُس وقت تک لوگوں کے احوال دیکھ سکتے ہو۔ یہ پیغام دے کر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔‘‘
یہ سن کر میرے چہرے پر خوشی کے تأثرات ظاہر ہوئے۔ جنھیں دیکھ کر خلیفۂ رسول کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ ایک وقفے کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے:
’’باہر بہت سخت ماحول ہے۔ صالح گرچہ تمھارے ساتھ ہوگا، مگر پھر بھی تم یہ پیتے جاؤ۔ یہ مشروب تمھیں باہر کے آلام سے محفوظ کردے گا۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے پاس رکھا سنہرے رنگ کا جگمگاتا ہوا ایک گلاس میری سمت بڑھادیا۔ میں نے دونوں ہاتھ آگے بڑھاکر یہ گلاس ان کے ہاتھوں سے لیا اور اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔
گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہی ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں گرچہ بالکل پیاسا نہیں تھا اور نہ کسی تکلیف اور بے چینی ہی میں تھا، مگر جو تسکین مجھے ملی وہ شاید صدیوں کے کسی پیاسے کو بھی پانی کا پہلا گھونٹ پینے پر نہیں ملتی ہوگی۔ اس مشروب کا ایک گھونٹ حلق سے اتارتے ہی لذت، سیرابی، آسودگی، مٹھاس اور ٹھنڈک کے الفاظ اپنے ایسے مفاہیم کے ساتھ مجھ پر واضح ہوئے جس کا تجربہ مجھے تو کیا، کسی دوسرے انسان کو بھی کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ اس مشروب کا ایک ایک قطرہ میری زبان سے حلق، حلق سے سینے اور سینے سے معدہ تک اترتا رہا اور میری رگ رگ کو سیرابی اور سرشاری کی کیفیت سے دوچار کرتا گیا۔ میرا دل تو چاہا کہ ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس پی جاؤں، مگر جس ہستی کے سامنے بیٹھا تھا، اس کا ادب اس میں مانع ہوا۔ میں نے آہستگی سے سوال کیا:
’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘
’’یہ نئی زندگی اور نئی دنیا کا پہلا تعارف ہے۔ یہ جام کوثر ہے۔ اسے پینے کے بعد حشر میں گرمی اور پیاس تمھیں نہیں ستائے گی۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی مجھے سمجھ میں آگیا کہ مجھ پر اس مشروب کا یہ غیر معمولی اثر کیوں ہوا تھا؟ یہ جنت کی نہر کوثر کا پانی تھا اور بلاشبہ ان تمام خصائص کا حامل تھا جن کا ذکر میں ہمیشہ سنتا رہا تھا۔ اس لمحے مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ جنت کی نعمتیں کیا ہوں گی۔ پچھلی دنیا میں کھانے پینے کی لذت دو چیزوں میں پوشیدہ تھی۔ ایک یہ کہ انسان کو شدید بھوک اور پیاس لگی ہو اور دوسرے اسے کھانے پینے کے لیے بہت لذیذ شے مل جائے۔ مگر جنت کی ہر شے اپنی ذات میں انتہائی لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو بغیر بھوک اور پیاس کے وہ لذت اور تسکین بھی فراہم کرے گی، جو صرف ایک انتہائی بھوکے اور پیاسے شخص کو ہی مل سکتی ہے۔ اب مجھے معلوم ہوگیا کہ جنت میں نہ بھوک ہوگی اور نہ پیاس، مگر اس کے باوجود انسان جتنا چاہے گا شوق سے کھائے گا اور اس کی کوئی سیری ایسی نہیں ہوگی جو اسے گرانی اور بھاری پن میں مبتلا کردے
جاری ہے۔۔۔۔