60 فیصد ڈاکٹر شدید ذہنی دباؤ کا شکار، ڈاکٹروں میں خودکشی کی شرح عام افراد سے دوگنی، ماہرین کا انتباہ

60 فیصد ڈاکٹر شدید ذہنی دباؤ کا شکار، ڈاکٹروں میں خودکشی کی شرح عام افراد سے دوگنی، ماہرین کا انتباہ

پاکستان میں تقریباً 60 فیصد ڈاکٹر ذہنی اور جسمانی تھکن یعنی برن آؤٹ کا شکار ہیں، جبکہ ڈاکٹروں میں خودکشی کی شرح عام آبادی کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے، تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ صرف ایک تہائی ڈاکٹر ہی نفسیاتی مدد حاصل کرتے ہیں۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس بحران کو نظرانداز کیا گیا تو صحت کا نظام اپنے ہی معالجین کو کھو دے گا۔

ان خیالات کا اظہار “لائف اِن اے میٹرو” کے عنوان سے منعقدہ ایک سائنسی سمپوزیم میں کیا گیا، جو میڈیورس کے تحت منعقد ہوا۔ میڈیورس، ہڈسن فارما پاکستان کا ایک تعلیمی پلیٹ فارم ہے، جس کا مقصد تحقیق پر مبنی طب کے فروغ کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کو درپیش جسمانی اور ذہنی مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

ماہرین امراض قلب اور ماہرین نفسیات نے بتایا کہ طویل ڈیوٹیاں، مریضوں کا غیر معمولی دباؤ، مسلسل نیند کی کمی، ٹریفک جام، سموگ اور برداشت پر مبنی پیشہ ورانہ کلچر ڈاکٹروں کو اپنی ہی صحت سے غافل کر رہا ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر خود صحت کے نظام کے سب سے نظرانداز مریض بن چکے ہیں۔

تقریب کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ جاوید نے کہا کہ لاہور جیسے بڑے شہروں میں ڈاکٹروں میں ذہنی دباؤ کی شرح خاص طور پر زیادہ ہے۔ ان کے مطابق سردیوں میں دھند اور سموگ کے باعث پیدا ہونے والی موسمی اداسی ڈاکٹروں میں بے چینی، افسردگی اور جذباتی تھکن کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

اپنے کلیدی خطاب میں سینئر کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ریحان عمر صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹروں میں برن آؤٹ ایک خاموش عالمی بحران ہے، جو اب پاکستان میں بھی واضح طور پر سامنے آ رہا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 60 فیصد ڈاکٹر کسی نہ کسی درجے کی ذہنی تھکن کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ ان میں خودکشی کی شرح عام لوگوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ڈاکٹر ڈپریشن، بے چینی، نشہ آور ادویات کے استعمال، ناقص غذا، ورزش کی کمی اور باقاعدہ طبی معائنے سے محرومی جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں، حالانکہ وہ یہی احتیاطی تدابیر اپنے مریضوں کو تجویز کرتے ہیں۔ وقت کی کمی، احساسِ جرم، بدنامی کا خوف اور خود کو ناقابلِ شکست سمجھنے کا رویہ ڈاکٹروں کو مدد لینے سے روکتا ہے۔

ڈاکٹر صدیقی نے ہوائی جہاز میں آکسیجن ماسک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دوسروں کی جان بچانے سے پہلے اپنی جان کی حفاظت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم “کسی کو نقصان نہ پہنچانے” کی بات کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر خاموشی سے خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے اداروں پر بھی تنقید کی کہ طویل خدمات کے بعد اکثر ڈاکٹروں کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے ڈاکٹروں کو نیند پوری کرنے، روزانہ جسمانی سرگرمی، متوازن خوراک، ذہنی سکون اور جذباتی صحت کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا، جبکہ اسپتال انتظامیہ سے کہا کہ وہ کام کے اوقات اور ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرے۔ ان کے مطابق صحت مند ڈاکٹر ہی بہتر علاج فراہم کر سکتا ہے۔

دوسری کی نوٹ مقرر ڈاکٹر کلثوم حیدر نے کہا کہ ذہنی اور جسمانی صحت ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن اور بے چینی دنیا بھر میں سب سے عام ذہنی مسائل ہیں اور اگر جذباتی دباؤ کو نظرانداز کیا جائے تو وہ جسمانی بیماریوں کی صورت میں سامنے آتا ہے، حتیٰ کہ دل کے امراض بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے ذہنی توازن کے لیے ذہن سازی، سانس کی مشقوں، جذبات کو پہچاننے اور شکرگزاری جیسی سادہ روزمرہ عادات اپنانے پر زور دیا۔

پینل مباحثے میں ڈاکٹر ممپل سنگھ نے کہا کہ ڈاکٹر دوسروں کی خدمت میں اپنی ذاتی زندگی کو بھول جاتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر مادیحہ سنائی کے مطابق مثبت سوچ اور جذباتی آگاہی ہی پیشہ ورانہ زندگی میں مضبوطی کی بنیاد ہے۔

ہڈسن فارما پاکستان کے جنرل منیجر مارکیٹنگ اینڈ سیلزخواجہ احدالدین، نے کہا کہ کمپنی کے نزدیک ڈاکٹر کسی بھی دوا یا پروڈکٹ سے زیادہ اہم ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ڈاکٹروں کی ذہنی تھکن اور خود سے غفلت کے مسائل کو سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو صحت کا پورا نظام خطرے میں پڑ سکتا ہے، کیونکہ جو نظام اپنے معالجین کو توڑ دے وہ مریضوں کو شفا نہیں دے سکتا۔ (اختتام)

-- مزید آگے پہنچایے --