نور مقدم کیس معاشرے میں پھیلتی لیونگ ریلیشن شپ کی برائی کا براہ راست نتیجہ ہے، جسٹس باقر نجفی

نور مقدم کیس معاشرے میں پھیلتی لیونگ ریلیشن شپ کی برائی کا براہ راست نتیجہ ہے، جسٹس باقر نجفی

وفاقی آئینی عدالت کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس میں کہا ہے کہ نور مقدم کیس معاشرے میں پھیلنے والی اُس ’برائی‘ کا براہِ راست نتیجہ ہے جسے ’لیونگ ریلیشن شپ‘ کہا جاتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس نجفی کا اشارہ ’لِو اِن ریلیشن شپ‘ کی طرف تھا، یعنی ایسی صورتحال جہاں دو غیر شادی شدہ افراد رومانوی تعلق کے تحت ایک ساتھ رہائش اختیار کرتے ہیں۔

27 سالہ نور مقدم جولائی 2021 میں ظاہر ذاکر جعفر کے اسلام آباد میں واقع گھر سے مردہ حالت میں ملی تھیں، رواں سال مئی میں جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں جسٹس اسحٰق ابراہیم اور جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ظاہر جعفر کو 2022 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔

گزشتہ ماہ، عدالتِ عظمیٰ نے ظاہر کی جانب سے دائر وہ نظرثانی درخواست سنی جس میں اسے دی جانے والی سزائے موت کو چیلنج کیا گیا تھا، دورانِ سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے مجرم کے وکیل خواجہ حارث احمد سے کہا کہ وہ اپنی دلائل کا آغاز اس اضافی نوٹ کو دیکھنے کے بعد کریں، جو اُس وقت تک جاری نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد جسٹس باقر نجفی نے نئی قائم شدہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کے طور پر حلف اٹھایا۔

آج سامنے آنے والے نور مقدم قتل کیس کے اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے مجرم ظاہر جعفر کی سزا برقرار رکھتے ہوئے یہ قرار دیا کہ یہ کیس دراصل اُس برائی کا نتیجہ ہے جو اعلیٰ طبقات میں ‘لیونگ ریلیشن شپ’ کے نام سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اس قسم کے تعلقات سماجی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور نہ صرف ملکی قانون بلکہ ذاتی (شریعت) قانون کی بھی نفی کرتے ہیں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے مزید کہا کہ ایسے تعلقات اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے خلاف براہِ راست بغاوت کے مترادف ہے، اور نوجوان نسل کو اس کے خوفناک نتائج پر غور کرنا چاہیے جو کہ موجودہ کیس میں بھی سامنے آئے، یہ امر سماجی اصلاح کاروں کے لیے بھی ایک موضوع ہونا چاہیے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے یہ بھی کہا کہ ان کے نزدیک اس کیس میں سزا میں تخفیف کرنے والے عوامل موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے قرار دیا کیا کہ ’وقوعہ کے وقت میں معمولی فرق، پوسٹ مارٹم میں تاخیر، چھری پر انگلیوں کے نشانات نہ ملنے لیکن ڈی این اے میچ ہونے، اور ایف آئی آر کے اندراج میں معمولی تاخیر، یہ سب استغاثہ کے شواہد کی ساکھ کو متاثر نہیں کرتے، کیونکہ شواہد بالواسطہ تھے‘۔

انہوں نے لکھا کہ رسی کا ایک سرا نور مقدم کی لاش سے بندھا ہوا ملا اور دوسرا سرا ملزم کی گردن سے بندھا تھا۔

-- مزید آگے پہنچایے --