ورلڈ یونیورسٹی گیمز 2025 میں شرکت کے لیے جرمنی بھیجے گئے پاکستان کے دو کھلاڑی، ندیم (100 میٹر اسپرنٹر) اور شازل (ہائی جمپر)، غیر متوقع طور پر غائب ہو گئے ہیں، جس سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے اور اعلیٰ حکام کی کارکردگی پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
دونوں کھلاڑیوں کا تعلق یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب (UCP)، لاہور سے ہے، جہاں کے ڈائریکٹر اسپورٹس ارشد ستار ہیں اور مشتاق ڈائریکٹر سپورٹس کمسیٹس یونیورسٹی ، اسلام آباد ان کے ہمراہ ایتھلیٹ ٹیم مینیجر کے طور پر جرمنی گئے۔ پاکستان کے وفد کی قیادت ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے ڈائریکٹر اسپورٹس جاوید علی میمن کر رہے تھے، جو سندھ سے ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں اور اسپورٹس سے ان کا کوئی پیشہ ورانہ تعلق نہیں۔
ذرائع کے مطابق ندیم نے نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں 100 میٹر کی دوڑ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، جب کہ HEC کا واضح معیار ہے کہ صرف گولڈ میڈلسٹ کھلاڑیوں کو ورلڈ یونیورسٹی گیمز کے لیے بھیجا جائے گا۔ تاہم، دعویٰ ہے کہ ندیم اور شازل دونوں سے مبینہ طور پر بڑی رقم لے کر ٹیم میں شامل کیا گیا، جو کہ شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے پاکستانی کھلاڑیوں کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے قبل معلوم ہوا کہ ندیم اور شازل دونوں "غائب” ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ دونوں جان بوجھ کر روپوش ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ پاکستانی کھیلوں کے امیج کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کی پرفارمنس بھی مایوس کن رہی۔ ندیم ابتدائی ہیٹ میں آخری نمبر پر رہا جب کہ شازل بھی کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر مشتاق، جاوید علی میمن یا HEC کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ کیا اس بدنامی کا کوئی احتساب ہوگا یا ہمیشہ کی طرح معاملہ دب جائے گا؟
پاکستانی اسپورٹس کے حلقے اور عوام اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس تمام صورتحال کی شفاف انکوائری کی جائے، ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہو، اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے اور معیار پر پورے اترنے والے کھلاڑیوں کو باہر کے مقابلوں میں شرکت کے لیے نظام میں بہتری لائی جائے۔ تاکہ وطن عزیز کی مزید بد نامی نہ ہو۔
