پناہ کے سیکریٹری جنرل ثناہ اللہ گھمن نے کہا کہ پاکستان میں غیر متعدی امراض میں اضافہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ ذیابیطس، موٹاپے، امراض قلب، گردوں کے امراض اور بعض اقسام کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں 60 فیصد اموات ان غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کا استعمال اس قومی صحت کی ہنگامی صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ غیر صحت بخش خوراک کا استعمال ہے جس میں الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کا وسیع پیمانے پر استعمال سرفہرست ہے۔ ان مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے، پاکستان میں 41 فیصد سے زائد بالغ افراد یا تو زیادہ وزن یا موٹے ہیں۔ مزید یہ کہ، اس وقت 33 ملین سے زیادہ لوگ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، مزید 10 ملین اس بیماری کی نشوونما کے دہانے پر ہیں۔ اس سیشن کا مقصد نوجوانوں کو غیر صحت بخش خوراک سے بچاؤ کی مہم میں شامل کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس (UPPs) کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے، پاکستان میں 41 فیصد سے زائد بالغ افراد زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں، جن میں سے 33 ملین سے زائد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اگر فوری طور پر پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو 2045 تک یہ تعداد بڑھ کر 62 ملین ہو جائے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ضرورت سے زیادہ چینی، نمک اور ٹرانس فیٹس سے لدی الٹرا پروسیسڈ مصنوعات ان بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فیصلہ کن کارروائی کرے، بشمول ٹیکسوں میں اضافہ اور تمام مصنوعات پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبل متعارف کرانا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ جناب ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ پناہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے طلباء پر مشتمل ایک نوجوان فورس تیار کر رہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو اس مہم کا حصہ بننے کے لیے تیار کرنا ہے۔