مجبوریوں کا سفر

مجبوریوں کا سفر

کمیٹی چوک انڈر پاس کے اوپر کھڑا ہو کر جب میں ٹریفک کو بغور دیکھتا ہوں تو یہ منظر دل میں ایک سوال اُبھارتا ہے: کیا واقعی معاشی بحران کا اثر کسی پر پڑ رہا ہے؟ ہر سو، ٹریفک کا ایک ہجوم نظر آتا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر چنگ چی، موٹر سائیکلوں اور کاروں تک، ہر قسم کی گاڑیاں رواں دواں ہیں، اور پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی نے ہمیں دبوچ لیا ہے؟ صدر میں پارکنگ کی حالت اور وہاں کی گاڑیوں کی تعداد بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ اگر پیٹرول اتنا مہنگا ہو تو پھر ٹریفک کا یہ رش کیسے برقرار ہے؟

میرے ایک دوست نے اس سوال کا جواب ایک بڑی سادگی سے دیا تھا، اور وہ بات میرے دماغ میں ہمیشہ کے لیے گھر کر گئی۔ وہ بولا، “کوئی خوشی سے نہیں نکلتا، یہ سب کی مجبوری ہے۔” میں نے اُسے کہا، “مگر کوئی مثال دے کر سمجھاؤ۔” وہ مسکرایا اور بولا، “چنگ چی والے کو دیکھ، کیا خوشی تھی کہ وہ اس رش زدہ سڑک پر اپنی زندگی کے قیمتی لمحے ضائع کرتا رہے؟ وہ بھی تو بچوں کا پیٹ پالنے، خاندان کا گزارہ کرنے اور اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر یہ سب کر رہا ہے۔” اسی طرح رکشہ والا، موٹر سائیکل سوار، اور وہ شخص جو گاڑی میں سفر کر رہا ہے، سب کے سب ایک ہی مقصد کے تحت گھر سے باہر نکلتے ہیں—زندگی گزارنے کی مجبوری۔ کہیں نہ کہیں، ہم سب ایک ہی دائرے میں بندھے ہیں، جہاں خوشی کا کوئی دخل نہیں، بس ضرورتوں کا بوجھ ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔

یہ منظر صرف ٹریفک کا نہیں، بلکہ معاشرتی حقیقتوں کا آئینہ ہے، جہاں ہم سب اپنی مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، اور زندگی کے اس چلتے ہوئے قافلے میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر، ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ، اپنے قدموں کی دھیمی دھڑکنوں کو برداشت کرتے ہیں۔

لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں نہ کہیں، یہ ٹریفک، یہ رش، ہماری وہ اجتماعی مشقت کی علامت ہے جسے ہم روز مرہ کے طور پر لیتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر اس بات سے بے خبر ہیں کہ جو ہم روزانہ کر رہے ہیں، وہ دراصل ایک مسلسل دوڑ ہے—اپنی زندگیوں کی بنیاد پر، اپنے خاندانوں کے لیے، اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے۔ ہم کبھی نہیں رکتے، نہ کسی لمحے کے لیے، نہ رکشے والے، نہ چنگ چی والے، نہ وہ جو سڑکوں پر چلنے والے ہیں، نہ وہ جو کبھی کبھار ایک کامیابی کے لمحے کے انتظار میں، بس اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی وجہ سے ٹریفک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم اکثر اپنی زندگیوں میں اس سے کہیں زیادہ دھکیل دیتے ہیں جتنا ہم برداشت کر پاتے ہیں۔ اور شاید یہی وہ بات ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہے—یہ احساس کہ ہم سب ایک دوسرے کی مدد کے لیے نہیں، بلکہ اپنی روزمرہ کی ضروریات اور زندگی کے بوجھ کو اٹھانے کے لیے اس راہ پر گامزن ہیں۔

یقیناً، یہ صرف ایک ٹریفک کا منظر نہیں، یہ اس انسان کی جدوجہد ہے جو بس اپنے قدموں کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، اور یہ جدو جہد کبھی ختم نہیں ہوتی، کبھی رکتی نہیں۔ اس سب میں ہم سب ایک دوسرے کے ہم سفر ہیں، اور شاید یہی وہ اصل حقیقت ہے جو ہمیں اپنی مشکلات میں کم از کم یہ تسلی دیتی ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --