غیر متعدی بیماریوں کا پھیلاوٗکا تناسب دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے،جس کی وجہ سے لاکھوں افراد ذیابیطس، موٹاپے، دل کی بیماری، گردے کی بیماریوں اور بعض قسم کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں 60 فیصد اموات ان غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔پاکستان میں دل اور متعلقہ امراض میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 240,720سے زیادہ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ غیر صحت مند خوراک جیسے چینی، نمک، چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء کا زیادہ استعمال دل کی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ دل کے امراض کو کم کرنے کے لیے ہمیں صحت مندطرز زندگی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ پیدل چلیں اور ایکسرسائز کو اپنا معمول بنائیں،ٹینشن سے بچیں، موٹاپے کو کنٹرول کریں، سیگریٹ نوشی سے پرہیز کریں اور صحت مند غذا کا استعمال کریں۔ اس تشویشناک مسئلے پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڑیالوجی میں منعقدہ سینسائزیشن سیشن میں روشنی ڈالی گئی اُس سیشن کا مقصدلوگوں کو غیر صحت بخش خوراک کے استعمال کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔
ڈاکٹر انجم جلال، ایگزیگٹو ڈائریکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڑیالوجی، نے کہا کہ دنیا میں ہر سال دل کی بیماریوں سے ایک کروڑ 79لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ WHOکے 2020کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں سالانہ 240,720لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوئے۔ آج ہمیں اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ ہم ایک صحت مند طرز زندگی اپنائیں۔ ورزش کو معمول بنائیں اور خوراک کے انتخاب میں محتاط رہیں۔ڈاکٹر انجم نے مزید کہا کہ غیر متعدی بیماریا ں جن میں دل، زیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، کینسر اور گردوں کی بیماریاں شامل ہیں دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اُن بیماریوں سے بچنے کے لیے سادہ طرز زندگی اپنائیں، خوراک میں زیادہ تلی ہوئی چیزوں، نمک اور چینی کے زیادہ استعمال خاص طور پر الٹرا پروسیسڈ مصنوعات (UPPs) کے استعمال سے پرہیز کریں۔
جنرل سیکرٹری پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ غیر متعدی بیماریاں ہماری صحت کے ساتھ ساتھ ہماری معشیت کے لیے بھی سنگین چیلنج بن چکی ہیں۔ صرف زیابیطس کے مرض پر سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2.6ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ ہے۔ پناہ دل اور متعلقہ بیماریوں سے بارے میں لوگوں میں آگائی کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مل کر ایسی قانون سازی کروانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جس سے بیماریوں میں کمی آئے گی۔ پناہ اب حکومت سے ساتھ مل کر غیر صحت مند اشیاء پر فرنٹ آف پیک لیبلنگ پر کا م کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو خوراک کے بارے میں بہتر آگائی ہو کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی، حکومت، صحافیوں، ہیلتھ پروفیشنلز اور معاشرے کے تمام فعال طبقوں کو مل کر ایک صحت مند پاکستان کے لیے کام کرنا ہو گا۔
منور حسین، ہیلتھ اینڈ نیو ٹریشن ایکسپرٹ نے کہا کہ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات (UPPs) کے زیادہ استعمال کیوجہ سے 41 فیصد سے زیادہ بالغ پاکستانیوں میں زیادہ وزن یا موٹاپا ہے، 33 ملین سے زیادہ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر فوری طور پرپالیسی ایکشن نہیں لیا گیا تو یہ تعداد 2045 تک بڑھ کر 62 ملین تک پہنچ جائے گی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضرورت سے زیادہ چینی، نمک اور ٹرانس فیٹس سے لدے الٹرا پروسیسڈ مصنوعات ایک اہم مسئلہ ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹیکس میں اضافے سمیت فیصلہ کن اقدام کرے اور تمام مصنوعات پر فرنٹ آف پیک انتباہی لیبل متعارف کیے جائیں تاکہ لوگوکو پتہ ہو کے وہ کیا کھا رہے ہیں۔