طالبان کے جنگجوؤں نے اقتدار میں واپسی کی پہلی سالگرہ سے چند روز قبل کابل میں خواتین کی جانب سے نکالی گئی غیر معمولی ریلی کے دوران انہیں مارا پیٹا اور ہوائی فائرنگ کی اور مظاہرین کو پرتشدد طور پر منتشر کردیا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 15 اگست کو افغانستان میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے دو دہائیوں پر محیط امریکی مداخلت کے دوران خواتین کی جانب سے حاصل کیے گئے معمولی فوائد بھی واپس لے لیے۔
تقریباً 40 خواتین جو ‘خوراک، کام اور آزادی’ کے نعرے لگا رہی تھیں، نے وزارت تعلیم کی عمارت کے سامنے مارچ کیا، جس کے بعد طالبان نے ہوائی فائرنگ کرکے انہیں منتشر کردیا۔
کچھ خواتین جنہوں نے قریبی دکانوں میں پناہ لی تھی، طالبان جنگجوؤں نے ان کا پیچھا کیا اور اپنی رائفل کے بٹوں سے انہیں مارا۔
خواتین مظاہرین نے ہاتھ میں بینر اٹھا رکھے تھے جس پر لکھا تھا ’15 اگست ایک سیاہ دن ہے’ کیونکہ خواتین کام کرنے کے حقوق اور سیاست میں شرکت کا مطالبہ کر رہی تھیں، انہوں نے ‘انصاف، انصاف، ہم جہالت سے تنگ آچکے ہیں،’ کے نعرے بھی بلند کیے، بیشتر خواتین نے اپنے چہرے نہیں ڈھانپے ہوئے تھے۔
احتحاجی مارچ کے منتظمین میں سے ایک زولیا پارسی نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے انٹیلی جنس سروس کے طالبان آئے اور ہوائی فائرنگ کی۔’
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے لڑکیوں کو منتشر کیا، ہمارے بینرز پھاڑ دیے اور بہت سی لڑکیوں کے موبائل فونز چھین لیے۔’
تاہم ایک احتجاجی خاتون منیسہ مبارز نے خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر طالبان اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے، ہم اپنے گھروں سے احتجاج کریں گی۔’
افغان خواتین کی کئی ماہ بعد پہلی مرتبہ کابل میں اپنے حقوق کے لیے نکالی گئی ریلی کی دوران کئی صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا.
اگرچہ طالبان حکام نے امریکا کے خلاف کچھ ریلیاں نکالنے کی اجازت دی ہے اور وہ اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اقتدار میں واپس آنے کے بعد خواتین کی کسی بھی ریلی کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔
گزشتہ سال کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے اسلامی قوانین کے مطابق سخت طرز حکمرانی کے بجائے نرمی اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا، طالبان نے 1996 سے 2001 تک اقتدار میں رہنے کے دوران سخت طرز حکومت قائم کی تھی۔
تاہم طالبان نے دوبارہ اسلامی قوانین کی سخت تشریح پر عمل کرتے ہوئے خاص طور پر خواتین پر پابندیاں دوبارہ عائد کردی ہیں۔
ہزاروں افغان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں اور اس کے بعد تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں پر واپس جانے سے روک دیا گیا ہے۔
خواتین کے اکیلے لمبا سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے اور وہ دارالحکومت میں عوامی باغات اور پارکوں کا دورہ بھی صرف اس وقت کرسکتی ہیں جن دنوں مرد وہاں نہ ہوں۔
رواں برس مئی میں افغانستان کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کو حکم دیا تھا کہ وہ عوامی مقامات پر خود کو کسی چادر سے مکمل طور پر ڈھانپ لیں۔