چینی صدر شی جن پھنگ نے 31 ویں ایپیک اقتصادی سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن سے پیرو کے شہر لیما میں ملاقات کی ہے۔
شی نے بائیڈن کو بتایا کہ گزشتہ 4 برس کے دوران چین۔امریکہ تعلقات نشیب و فراز سے گزرے ہیں تاہم فریقین بات چیت اور تعاون میں بھی مصروف رہے اور تعلقات میں مجموعی طور پر استحکام رہا۔
شی نے کہا کہ دونوں صدور کی سربراہی میں فریقین نے مشاورت سے چین۔امریکہ تعلقات کے لیے کئی رہنما اصول وضع کئے اور دونوں صدور مشترکہ طور پر چین امریکہ مذاکرات اور تعاون کو دوبارہ صحیح راہ پر واپس لائے۔
انہوں نے کہا کہ رابطے کے 20 سے زائد نظام دوبارہ شروع یا قائم کئے گئے اور سفارتکاری، سلامتی، معیشت، تجارت، مالی امور، مالیات، فوج، انسداد منشیات، قانون نافذ کرنے والے اداروں، زراعت، موسمیاتی تبدیلی اور عوامی تبادلے جیسے شعبوں میں مثبت کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
شی نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ چار سالوں کے تجربات کا جائزہ لینا اور ان سے سبق حاصل کرنا قابل قدر ہے۔ اس حوالے سےانہوں نے مختلف تجاویز بھی پیش کیں۔
شی نے تائیوان، اقتصادی و تجارتی تعلقات، سائنس و ٹیکنالوجی، سائبرسکیورٹی، بحیرہ جنوبی چین، یوکرین بحران اور جزیرہ نما کوریا جیسے امور پر چینی موقف بھی واضح کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آبنائے پار امن و استحکام اور "تائیوان کی آزادی” علیحدگی پسند سرگرمیاں پانی اور آگ کی مانند ہیں۔ اگرامریکہ کو آبنائے تائیوان میں امن برقرار رکھنے کی پرواہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ "تائیوان کی آزادی” کی لائی چھنگ تے اور ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی حکام کے حقیقی عزائم کو واضح طور پر دیکھے، تائیوان سوال کو زیادہ دانشمندی کے ساتھ نمٹائے، واضح طور پر "تائیوان کی آزادی” کی مخالفت کرے اور چین کے پرامن اتحاد کی تائید کرے۔
ملاقات کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ۔چین تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ دنیا کے مستقبل کے لیے بھی اہم ترین دو طرفہ تعلقات ہیں۔
دونوں حکومتوں پر دونوں ممالک کے عوام اور دنیا کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ مسابقت تصادم کی شکل اختیار نہ کرجائے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4 برس کے دوران فریقین نے رابطوں کے ذرائع قائم کرنےیا ان کی از سر نو تعمیر کے لئے مل کر کام کیا ہے، دونوں اطراف کی سفارتی اور سکیورٹی ٹیموں نے اکثر اسٹریٹجک رابطے کئے اور واضح اور گہری بات چیت کی ہے جس سے فریقین کو ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی۔
امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ نہ تو نئی سرد جنگ چاہتا ہے اور نہ ہی چین کے نظام کو تبدیل کرنے اور چین مخالف اپنے اتحادوں کو بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا، چین سے تنازع کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور چین سے مقابلے کے لئے اپنی تائیوان پالیسی کو استعمال نہیں کررہا ہے۔
انہوں نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ امریکہ ایک چین اصول کی پاسداری کرے گا۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکہ منتقلی کے عمل کے دوران چین کے ساتھ بات چیت اور رابطوں کو بڑھانے کے لئے تیار ہے تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اختلافات کو ذمہ داری کے ساتھ حل کر سکیں۔
دونوں صدور نے چین۔امریکہ تعلقات کے رہنما اصولوں پر سات نکاتی مشترکہ سمجھ بوجھ کی تجدید کی۔ان میں ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا سلوک کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے زندگی گزارنے کا راستہ تلاش کرنا، رابطوں کے کھلے راستے برقرار رکھنا شامل ہے۔ان میں تنازعات کو روکنا، اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کرنا، مشترکہ مفادات کے شعبوں میں تعاون کرنا، اور تعلقات کے مسابقتی پہلوؤں کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالنا بھی شامل ہے۔
دونوں فریقوں نے ان اصولوں کی پاسداری کرنے، چین۔امریکہ تعلقات کو مستحکم رکھنے، اور تعلقات کی منتقلی کو ہموار بنانے کے لئے عزم کا اظہار کیا۔