ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں لیکن ہم قانون پر چلتے ہیں، چیف جسٹس

ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں لیکن ہم قانون پر چلتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے آج آخری دن ہے جہاں ان کی عدلیہ کے لیے خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے الوداعی فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے دس بجے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز، چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور خاندان کے دیگر افراد شریک ہوئے۔

سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چوہدری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔

ان کا کہنا تھاکہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے، ججز کو تعینات کیا اور ایک غیرفعال عدالت عالیہ بلوچستان کا کام شروع ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسیٰ ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمٰعیل پائلٹ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے مجھے بلایا، مجھے لگا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں کیونکہ وہاں کوئی جج نہیں رہا، میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے اور ان کی رضامندی کے بعد میں بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ(نواسی) نے مجھے کہا کہ میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مرگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جانور اور پرندے بھی بنائے ہیں، ان کا بھی تو ہمیں خیال رکھنا ہے، یہ تو ان کا گھر ہے اور ہم ان کے گھر میں داخل ہو گئے، ماحولیات بہت اہم موضوع ہے اور ہم کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے عملے اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل اور جج کی اہمیت پر بھی گفتگو کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے اور کہاں جھوٹ ہے، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے۔

چیف جسٹس نے خطاب کے آخر میں سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔

چیف جسٹس کے خطاب کے اختتام کے ساتھ ہی فل کورٹ ریفرنس ختم ہو گیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی عشائیےکا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

-- مزید آگے پہنچایے --