پاکستانی ماہرین تعلیم اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کثیرالجہتی تعاون کو فروغ د ینے کے ساتھ جغرافیائی اور معاشی غیر یقینی صورتحال میں مشترکہ مسائل سے نمٹ رہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کیلئے پاکستان کے پہلے قومی رابطہ کار بابر امین نے اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے زیر اہتمام کانفرنس میں ایس سی او کے لائحہ عمل کے تحت رابطوں اور علاقائی سلامتی کے تعاون کو فروغ دینے میں پاکستان کے تزویراتی کردار کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا تزویراتی محل وقوع اسے ایک مثالی تجارتی گزرگاہ بناتا ہے۔ پاکستان اقتصادی طور پر مربوط خطے کے مشترکہ ویژن کو آگے بڑھانے کے لئے رابطے کی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری پر توجہ دے رہا ہے۔
بابرامین نے کہا کہ پاکستان نے علاقائی مسائل کے باوجود اقتصادی تعاون، رابطے اور سکیورٹی اقدامات کو آگے بڑھانے کی کوششیں کیں۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سوشل سائنسز کی پروفیسر امینہ مسعود نے اسلام آباد میں ایس سی او کے رکن ملکوں کے سربراہان حکومت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس کے بارے میں کہا کہ ایس سی او اجلاس دوطرفہ اور کثیر الجہتی اجلاسوں کے لئے ایک بے مثال موقع فراہم کرے گا جس کا مقصد اقتصادی اور ثقافتی تعاون کو یقینی بنانا ہے۔
پروفیسر امینہ مسعود نے وسطی ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کی تجارتی اور تکنیکی شراکت داری کو بڑھانے کے لئے ایس سی او فورم سے استفادہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وسیع تر علاقائی تعاون کے لئے تعلیمی اور ثقافتی تبادلوں سمیت مزید شعبوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل سہیل محمود نے کہا کہ اگرچہ ایس سی او کے کثیرالجہتی پلیٹ فارم سے مثالی نتائج کی توقع کی جاتی ہے تاہم حقائق اور مسائل کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی مستحکم ہونی چاہئے۔
سہیل محمود نے ایس سی او کے بڑھتے اقتصادی اثرورسوخ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام سے لے کر اب تک رکن ملکوں کے درمیان تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور عالمی مطابقت کی عکاسی کرتا ہے۔