سی ائی ایس ایس کا جوہری توانائی کے کردار پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

سی ائی ایس ایس کا جوہری توانائی کے کردار پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

مقامی تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز (سی آئی ایس ایس) نے "پاکستان کا توانائی بحرانِ، جوہری توانائی کا کردار” پر ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کی انرجی سیکٹر سے متعلق مختلف اداروں کے سٹیک ہولڈرز، ماہرین اور سکالرز نے شرکت کی۔ سیمینار پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے جوہری توانائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے مقصد سے منعقد کیا گیا۔


سیمینار میں سابق مشیر وزارت خزانہ ڈاکٹر خاقان حسن نجیب، سابق چیئر مین نیپرا توصیف ایچ فاروقی اور سابق سینیٹر اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین شریک تھے۔بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ہیڈ پلاننگ اور اکنامک اسٹڈیز سیکشن ڈاکٹر ہینری پائلیرے نے حاضرین سے آن لائن خطاب کیا۔ شرکاء کا تعلق قومی اور بین الاقوامی اداروں سے تھا، جن میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (پی اے ای سی)، آئی اے ای اے، مختلف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیاں شامل تھیں۔

سیمینار نے مختلف تنظیموں کے سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرتے ہوئے پاکستان کے پرامن جوہری پروگرام کی کامیابیوں اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) میں اس کے کردار کو اجاگر کیا، جن میں ایس ڈی جی 7 (ارزاں اور صاف توانائی) اور 13 (موسمیاتی تبدیلی) شامل ہیں۔ سیمینار میں پاکستان کی توانائی کے ضمن میں جوہری توانائی کے استعمال میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جا سکے اور موسمیاتی تبدیلی کو کم کیا جا سکے۔


سی آئی ایس ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سابق سفیر سید علی سرور نقوی نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور سیمینار کے اغراض و مقاصد اور پاکستان کی جوہری توانائی میں کامیابیوں کی وضاحت کی۔ اپنے کلیدی خطاب میں ڈاکٹر خاقان نجیب نے ملک کی توانائی کی ساخت کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سلیب پر مبنی ٹیرف کو ختم کیا جائے اور بجلی کے استعمال کو فروغ دیا جائے، کیونکہ اس وقت پاکستان صنعتی اور گھریلو شعبوں میں بجلی کی کم طلب کا سامنا کر رہا ہے جبکہ پیداواری صلاحیت 45000 میگا واٹ سے زیادہ ہے۔


انہوں نے توانائی کے شعبے میں متحرک ماڈلنگ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جوہری توانائی کے بارے میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ پلانٹس 60 سے 80 سال تک چلتے ہیں اور توانائی کی سکیورٹی کا اضافی فائدہ دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان میں 14 سے 18 ماہ کا ایندھن ایک بار میں لوڈ کیا جاتا ہے اور اس میں ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
اس موقع پر توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ الیکٹران کے انتخاب کا واحد معیار یہ ہونا چاہیے کہ وہ ارزاں، قابل اعتماد اور پائیدار ہو جبکہ جوہری توانائی ان تمام خصوصیات پر پورا اترتی ہے۔سیمینار سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر ہینری پائلیر نے جوہری توانائی کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ پیش کیا اور کہا کہ جوہری توانائی ایک طویل مدتی حل ہے جو پائیدار ہے اور اس کے فوائد اعلیٰ سرمایہ کاری کے نقصانات پر حاوی ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "جوہری توانائی کے بغیر ہمارے اخراج اور کاربن فری توانائی کے ہدف تک پہنچنا بہت مشکل ہے” پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ڈاکٹر عافیہ ملک نے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے جانب سے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کے فیصلے کے بعد، جوہری توانائی ایک قابل عمل آپشن ہے۔
سابق ڈی جی وزارت موسمیاتی تبدیلی عرفان طارق نے موسمیاتی تبدیلی کے مسائل اور ان کے حل میں جوہری توانائی کے کردار کو اجاگر کیا۔سابق سفیر شفقت کاکاخیل نے پاکستان کے ایس ڈی جیز کے حصول میں جوہری توانائی کے کردار پر زور دیا۔ معروف تجزیہ کار سید محمد علی نے توانائی کی سیکیورٹی میں جوہری توانائی کے کردار پر بات کی۔ سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری اور سابق ممبر انرجی منصوبہ بندی کمیشن سید اختر علی نے سیمینار کے سیشنز کی صدارت کی۔

معروف سیاستدان اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے سیمینار کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے جوہری پروگرام سے وابستہ سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوسل فیول سے صاف توانائی کے اختیارات بشمول جوہری توانائی کی طرف منتقل ہو۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جوہری توانائی صاف اور گرین ہے اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک محرک کے طور پر کام کرے گی۔

-- مزید آگے پہنچایے --