کثیر الجماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلیے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔
سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا ، جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، آج جنگ ایران اور لبنان، یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔
سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جاسکے، ہمیں اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کا جو واضح مسئلہ فسلطین پر 1947 سے اور اس سے قبل جو واضح مؤقف تھا اسے اپنا کر دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے جس کے نتیجے میں تقریباًً 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور 10 ہزار افراد ملبے تلے دب چکے ہیں جبکہ 42 سے 43 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 173 صحافی بھی اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تعداد 900 کے قریب ہے اور 128 زیر حراست ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری مظالم کی وجہ سے اسکولوں، ہسپتالوں اور حتیٰ کے چرچز کو بھی تباہ کیا گیا ہے، اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہمیں اس کثیر الجماعتی کانفرنس سے ایک فلسطین کی آزاد ریاست کا واضح پیغام دینا چاہیے، دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں پاکستان کا ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، آج اگر فسلطینی بچوں کی لاشیں ان بموں سے پگھل رہی ہیں تو کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، 2019 سے 2023 کے عرصے کے دوران امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی ایک وسیع تاریخ ہے اور وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہتا ہے، حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے، ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا آفس قائم ہونا چاہیے۔