وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود آئینی مسئلہ یہ ہے کہ لسٹ کا ملکی قانون کے مطابق فیصلہ ہونا ہے اور آئین پاکستان کے قوانین کی موجودگی میں اب یہ نشستیں کس طرح سے تقسیم ہونی ہیں اس کا جواب اس تفصیلی فیصلے میں نہیں ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ فیصلہ آئین سے متصادم ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔اس حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آج بھی موجود ہے کہ اگر آپ آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر آئے ہیں تو الیکشن جیتنے کے بعد تین روز کے اندر آپ نے کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بننا ہوتا ہے اور یہ قانون کے تحت اب ناقابل واپسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 51 کہتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم قانون کے مطابق ہو گی اور صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے 106 کے قانون میں بھی یہی کہا گیا، صورتحال ویسی کی ویسی ہی ہے، سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے بھی موجود ہیں کہ پارلیمان کی قانون سازی کا اختیار کُلی ہے اور پارلیمان کی جانب سے بنائے گئے قانون کو عدالتی فیصلوں پر فوقیت حاصل ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی کی اپیل غیرموثر نہیں ہوئی کیونکہ آئین کے تحت قانون حق دیتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی نظرثانی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں، آج کے تفصیلی فیصلے نے ان نظرثانی درخواستوں کو مزید تقویت دے دی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن میں کارروائی شروع ہوئی اور جب ان کا فیصلہ آیا تو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا اور وہاں سے 0-5 سے ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ یہ آئین پاکستان اور قوانین کے مطابق درست فیصلہ ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو نوٹس نہیں لیا اور ابھی بھی تفصیلی فیصلے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس طرح کے فیصلے کرمنل پروسیجر کوڈ کے مطابق ہوتے ہیں جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ فریقین کون ہیں، کون ریلیف مانگنے آیا ہے، کس نے اپنا مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور استدعا کیا کی گئی ہے تو قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ میرے خیال میں ایک نیا فلسفہ ہے کس کی وجہ سے کنفیوژن ہوئی ہے جو شاید نظرثانی درخواستوں میں دور ہو۔
انہوں نے کہا کہ اب صورتحال ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ پارٹی جو فریق نہیں تھی، وہ پارٹی جو بطور پارٹی نہ الیکشن کمیشن میں ریلیف مانگنے گئی، نی وہ پارٹی پشاور ہائی کورٹ میں فریق بنی، نہ وہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فریق بنی اور وہ درخواست شوزب صاحبہ کی تھی کہ میں کیونکہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے امیدوار نامزد ہوئی ہوں تو یہ نشستیں ہمیں گی جائیں اور اس میں آج بھی یہ واضح پوزیشن ہے کہ جو جواب دہندگان ہیں انہیں نوٹس نہیں ہوئے، آزادانہ کارروائی نہیں ہوئی، فریق بننے کی درخواستیں نہیں آئیں، جن اراکین قومی اسمبلی کے بارے میں فیصلہ ہوا ان کی رائے نہیں تو یہ سارے سوالات ویسے کے ویسے کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے بطور وکیل اس بات کی تکلیف ہوئی کہ آخری دو پیراگراف میں اختلافی رائے دینے والے دو معزز جج صاحبان کے بارے میں کافی سختی سے لکھا گیا ہے، عدالت میں سب ججز برابر ہیں، کسی کا سینئر جج ہونا فیصلوں پر حاوی نہیں ہوتا اور اختلاف ہی مباحثے اور منطق کا حسن ہے، مختلف آرا میں ہی کچھ نہ کچھ بہتر نکلتا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود آئینی مسئلہ یہ ہے کہ لسٹ کا ملکی قانون کے مطابق فیصلہ ہونا ہے اور 104۔اے اور سیکشن 66 آج قانون کی کتاب کا حصہ اور موثر قوانین ہیں، ان کی موجودگی میں اب یہ نشستیں کس طرح سے تقسیم ہونی ہیں یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اس تفصیلی فیصلے میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں ان اراکین نے بغیر کسی جبر اور اپنی رضامندی سے حلف نامہ دیا کہ ہم سنی اتحاد کونسل کے اراکین ہیں اور اس کے بعد پوری کارروائی کے دوران یہ بات بھی نہیں آ۴ی کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کو جا سکتی ہیں، سماعت اس بات پر تھی کہ یہ نشستیں سنی اتحادی کونسل کو مل سکتی ہیں یا نہیں مل سکتیں، یہ جو تیسری صورتحال نکلی تو اس پر لوگوں نے کہا کہ یہ 63۔اے کی طرح آئین کو دوبارہ ازسرنو لکھ دیا گیا ہے، میرے خیال سے عدالت تشریح کرتے ہوئے اس حد تک تشریح نہ کرے کہ آئین کا اصل قانون وہ ہی تبدیل ہو کر رہ جائے۔