لاہور ہائیکورٹ نے صوبائی وزیر اور لیگی رہنما عظمیٰ بخاری کی فیک ویڈیو کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو پیر کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے عظمیٰ بخاری کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے ایف آئی اے کی رپورٹ پیش کی، عدالت نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر سوالات اٹھا دیئے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ آپ کے لوگ ان سیٹوں کے اہل نہیں۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ گرفتار ملزم حیدر علی کا موبائل فرانزک کیلئے بھجوا دیا گیا ہے، وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ متہ پولیس سٹیشن نے ملزم حیدر کو گرفتار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ راہداری ریمانڈ مانگ رہے تھے لیکن آپ نے ملزم حیدر کو گرفتار ہی نہیں کیا، راہداری ریمانڈ اس وقت لیا جاتا ہے جب ملزم آپ کی کسٹڈی میں ہوتا ہے، متہ پولیس سٹیشن کے پاس ملزم ہے آپ راہداری ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ گرفتار کرنے گئے تو ایس ایچ او متہ نے بتایا کہ ملزم کی ضمانت ہو چکی ہے، ملزم نے اب لاہور کی سیشن کورٹ سے عبوری ضمانت کرالی ہے۔
اس پر چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اتنے سادہ ہیں، پولیس نے بتایا ضمانت ہوئی ہے تو آپ نے مان لیا، آپ کا زور ادھر چلتا ہے پنجاب میں جس کو دل چاہا گرفتار کر لیا، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ کے پی پولیس ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے ضمانت دی، آپ کی ایف آئی آر کا ملزم تھا آپ نے گرفتاری ڈالی نہیں، پولیس نے پیش کروا کر کیسے جوڈیشل کرایا۔
بعدازاں عدالت نے پیر کے روز ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر آپ کا سربراہ رپورٹ سمیت پیش ہو، یہ کمپرومائزڈ سسٹم نہیں چلے گا۔عدالت نے فلک جاوید کے والد کو الگ سے درخواست دائر کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ آپ الگ سے درخواست دائر کریں اور اس میں اپنے تحفظات لکھیں۔