پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں آئین سازی کیلئے کم ازکم اتفاق رائے بناناپڑتا ہے، مولانا فضل الرحمان کافی چیزوں پر راضی ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں اٹھاریں ترمیم کی طرح مجوزہ آئینی ترامیم پربھی اتفاق رائے ہو۔ان کا کہنا تھا کہ دو دن پہلے یہ کمیٹی بنائی گئی، اس وقت اسمبلی کا ماحول خراب تھا، ہم نے اسمبلی کا ماحول بہتربنانے کی کوشش کی،ایک سیاسی جماعت کے قائد نے عدلیہ اور آرمی چیف پر حملہ کیا، وہ آج تک اپنے اس بیان سے پیچھے نہیں ہٹے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جنہوں نے اس ادارے کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی ان سےکیا امید رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم کم از کم اکثریتی اتفاق رائے لے کر آئیں، ہم 2006 سے میثاق جمہوریت کو مکمل کرنے کے انتظار میں ہیں، اگر ہمیں ایک دن اور انتظار کرناپڑا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔واضح رہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم ایوان میں پیش نہیں ہوسکیں، قومی اسمبلی، سینیٹ اور وفاقی کابینہ کا اجلاس پیر تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
اس سے قبل اتوار کو پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں نے آئینی عدالت کی مشروط حمایت کردی، پی ٹی آئی، جے یو آئی اور حکومتی اتحادکی جماعتیں آئینی عدالت پرمشروط رضامند ہیں۔خیال رہے کہ مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق حکومت سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر ججوں میں سے چیف جسٹس لگائے گی، چیف جسٹس آف پاکستان کا انتخاب پانچ سینیئر ججوں کے پینل میں سے ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی، آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور چار ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن اورپارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک کیا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی جائے گی، منحرف ارکان کے ووٹ کی شق بھی مجوزہ ترامیم کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے کی ترمیم بھی شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز ہے۔