امن کی فاختائیں اور ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی مائیں۔۔۔!

امن کی فاختائیں اور ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی مائیں۔۔۔!

تحریر= ناصراسلم راجہ

انسیت سے شروع ہونے والا سفر پیار، محبت ، عشق، جنون اور پھر عبادت کی منزلوں تک پہنچتا ہے اور یہ منزل ہر کسی کو نہیں ملا کرتی کیونکہ راستے میں ہوس ، لالچ ، دکھاوا اور مفاد پرستی کے بت آپ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر ان منزلوں کی طے کردہ مسافت ریگستان کے سرابوں کی صورت غائب ہو جاتی لیکن یہ بھی ہوتا ہی کہ چالاکی اور عیاری سے پاک سادگی آپ کو سالوں کی مسافت پل بھر میں طےکروا دیتی ہے۔ ارشد ندیم کی اولمپکس میں کامیابی اور جیت کے جشن میں ہم دو شخصیات کی جیت کو وہ پزیرائی نہ دے سکے جس کی وہ حقدار تھیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کی ایک مضبوط دیوار کھڑی ہے جس کو پاٹنے کے لئے امن کی آشا، کرکٹ ڈپلومیسی ، آم ڈپلومیسی اور ساڑھی ڈپلومیسی جیسی درجنوں کوششیں ہوئیں لیکن ان دو شخصیات کی دو لفظی گفتگو نے ایک میڈل نہیں بلکہ کروڑوں دلوں کو جیت لیا۔ ان کی گفتگو میں “ دیکھیں” میں سمجھتی ہوں” میرا خیال ہے”ہوں “ ہاں “ایسا ہونا چاہیے” جیسے کسی لفظ “ کا کوئی تڑکا نہیں، بس انتہائی سادہ بات ایک دوسرے کی کامیابی پر خوش اور ماؤں جیسا خوبصورت دل سب کے سامنے رکھ دیا اور یہ تھیں ارشد ندیم کی والدہ اور بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑہ کی والدہ جنہوں نے اپنے سادہ فقروں سے بڑے بڑے لیکچرز دینے ، سیمنارز اور میزوں کی اطراف بیٹھ کر بحث کرنے والوں کو بتا دیا ہے کہ سفارت کاری کیا ہوتی ہے، دو ملکوں کے عوام کے کس طرح دل جیتے جاتے ہیں اور انہوں نے بڑے اولمپکس، ورلڈ چیمپئن اور مقابلے کروانے والوں کو یہ باور کروا دیا ہے کہ جیت کیا ہوتی، سپورٹس کے مقابلوں کا مقصد کیا ہوتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ ورلڈ اولمپک کمیٹی ، دونوں ملکوں کی اولمپک کمیٹیاں ، دونوں ملکوں کی حکومتیں ان ماؤں اور ان کےبطن سے جنے ہوئے دونوں سپوتوں کو باری باری دونوں ملکوں کے دوروں پر بلائیں ان کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کروائیں اور ان ماؤں کو ہیروں جڑے میڈل پہنائیں۔ کیونکہ ان ماؤں نے امن کی فاختاؤں کو مات دے دی ہے

-- مزید آگے پہنچایے --