میاں چنوں سے پیرس اولمپک تک۔۔۔۔!

میاں چنوں سے پیرس اولمپک تک۔۔۔۔!

تحریر ۔ناصراسلم راجہ

کراچی میں سمندر کے کنارے چند میلے کچیلے لڑکے اپنی شلواریں اڑس کر اپنی مہارت کا مظاہرہ کر رہے تھے کچھ لوگ پانچ روپے کا سکہ سمندر کی تہہ میں پھینکتے وہ لڑکے جو پتھر کی ایک پہاڑی پر کھڑے تھے سمندر میں ڈائیو کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سکہ نکال کرباہر آجاتے، سب لوگ انکی مہارت کو انجوائے بھی کر رہے تھےاور متاثر بھی ہو رہے تھے کہ وہاں موجود ایک ان ہی جیسے لیکن عمر میں ان سے بڑے شخص نے بتایا کہ یہ مچھیروں کے بچے ہیں اور ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی پیدائش سمندری پانیوں میں ہی ہوتی ہے ،پانی میں تیرنا اور جمپ کرنا ، بغیر کسی مصنوعی سپورٹ کے سمندر کی تہہ میں تادیر سانس روکے موجود رہنا انکے لئے معمولی بات ہے۔ پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کے سابق صدر کامران لاشاری پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ملک میں سوئمنگ کے فروغ کے لئےہم ٹیلنٹد نوجوان بچوں کو سلیکٹ کرکے انہیں تربیتی کیمپ میں رکھیں گے جہاں انکی تعلیم اور کھانے اور رہن سہن کے اخراجات بھی پورے کریں گے بلکہ اسکالر شپ بھی دیں گے تاکہ وہ دنیا میں سوئمنگ کے ذریعے ملک کا نام روشن کریں وہاں میں نے بطور جرنلسٹ انہیں یہ مشورہ دیا کہ آپ ساحلی پٹی میں رہنے والے مچھیروں کے بچوں کو جا کر سلیکٹ کریں اور پھر انہیں تربیت دے کر عالمی مقابلوں کے لئے تیار کریں مجھے یقین ہے کہ قدرتی ٹیلنٹ کی وجہ سے یہ بچے ضرور بہترین نتائج دیں گے چونکہ بحثیت قوم ہم شارٹ کٹ کے عادی ہوتے ہیں اور جس کام کو ذرا مشکل سمجھیں اس اختیار نہیں کرتے اور تن آسانی کا شکار رہتے ہیں، یوں میری اس تجویز پر کوئی عمل نہ ہو سکا اور نہ ہی کسی نے کوشش کی،
ہمارے گاؤں دیہاتوں کی غربت میں رہنے والے لیکن قدرتی ماحول میں پرورش کی وجہ سے لوگ سخت جان ہوتے ہیں
ارشد ندیم بھی ہمارا ایسا ہی ٹیلنٹ ہے جسکے والد میاں چنوں میں بطور میسن کام کرتے تھے اور ارشد ندیم کبھی کبھی اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لئے روایتی طور پر نیچے سے اوپری منزل پر اینٹیں پھینکتا اور اور والد کیچ کر کے دیوار میں چن دیتا، بظاہر یہ غربت کی نشانی اور مشکل مزدوری تھی لیکن قدرت ارشد کوآج کے دن کے لئے تیاری کرا رہی تھی، ایسے کئی ارشد ندیم دور دراز گاؤں گوٹھوں میں ایک بہترین سسٹم اور جوہری کا انتظار کر رہے ہیں جو انکے ٹیلنٹ کو استعمال کر کے دنیا کوحیران کردے۔ اب ایک اور حقیقت جانیے جس کے عینی شاہد اورراوی پاکستان سپورٹس بورڈ کے سابق ڈی جی بریگیڈیر (ر)عارف صدیقی ہیں انہوں نے بتایاکہ جب ہمارے ہاکی کے معروف ایکسپرٹ سابق اولمپئن ہاکی کھلاڑی سہیل عباس نے شارٹ کارنر کے ذریعے ہالینڈ کے ایکسپرٹ پال لٹجن کا 269 گول کا ریکارڈ توڑا تو پاکسان سپورٹس بورڈ کے اس وقت کے ڈی جی بریگیڈیئر عارف صدیقی اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے اس وقت کےصدر لیفٹیننٹ جنرل سید عارف حسن کی سفارش اور کوشش سے صدر مملکت نے سہیل عباس کو ایوان صدر بلا کر کیش انعام دینے کا فیصلہ کیا، ایک پروقار تقریب میں جب صدر نے اولمپئن سہیل عباس سے پوچھا کہ شارٹ کارنر پر گول کرنے کے لئے تم کیا محنت کرتے ہو تو سہیل عباس نے ایک عجیب جواب دے کر سب کو حیران کردیا، اس نے کہا بطور کھلاڑی ہم جو محنت کرتے ہیں وہ تو ہے ہی لیکن جب میں شارٹ کارنر لگاتا ہوں تو میرا ٹارگٹ کہیں اور ہوتا اور گیند کہیں اور سے جگہ بناتی ہوئی گول پوسٹ کے اندر چلی جاتی ہے اور میں خود بھی حیران رہ جاتا لیکن میں یہ جانتا تھاکہ یہ معجزہ سب میری ماں اور باپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہوتا ہے عام طور پر ہیروز اپنی محنت کے گن گاتے ہیں لیکن کامیابیوں کی شروعات ان والدین کے قدرت کے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھوں کے ذریعے ہوتی ہے جن کو اللہ پاک کبھی خالی نہیں لوٹاتا ۔
ارشد ندیم کےمیاں چنوں سے فرانس تک کے اس سفر اور بانوے ستانوے کے ہندسے تک پہنچنے کے لئے والدین کے محنت سے پھٹے ہوئے ہاتھوں کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ابتدائی کوچ فیاض بخاری ، موجودہ کوچ سلمان بٹ جو خود بھی ڈسکس تھرو کے سابق قومی چمپئن اور جوانی میں خوبصورت جسمانی ساخت کے مالک تھے اور اتھلیٹک کی فیلڈ کے باکمال منجھے ہوئے ماہر ہیں ، ڈاکٹر اسد عباس جنہوں نے انکی فٹنس کے مسائل حل کئے اور اعزازی کیپٹن اشرف کی کنٹری بیوشن شامل ہے اور والدین جن کی دعائیں اولاد کے حق میں رد نہیں ہوتیں۔ آئیں اس فارمولے کو بروئے کار لاتے ہوئے چمپئن تلاش کریں۔

-- مزید آگے پہنچایے --