بچوں کے حقوق کے تحفظ اور صحت عامہ کی تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک)نے تمباکو انڈسٹری کی پاکستان کے تمباکو کنٹرول کے ضوابط کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ تمباکو کی صنعت کی اس تجویز کا مقصد 10 سگریٹ کے پیک کی تیاری اور اسے برآمد کی اجازت دینا ہے، جسے عام طور پر کڈی پیک کہا جاتا ہے، ایساکوئی بھی اقدام پاکستان اور دیگر ممالک میں صحت عامہ کے بڑے مسائل کاباعث بن سکتا ہے ،تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز یہاں ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہ تقریب کے دوارن ماہرین صحت نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ فیصلے سے پاکستانی اور سوڈانی دونوں بچوں پر اس تجویز کے منفی اثرات مرتب ہونگے ،انہوں نے کہ کہ 10سگریٹ کے کڈی پیک متعارف کروانے سے نوجوانوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہونگے ، یہ چھوٹے اورقیمت میں کم پیکٹ اس امکان کو بڑھاتے ہیں کہ بچے اور نوعمر کم عمری میں ہی سگریٹ نوشی شروع کر دیں گے، جس کی وجہ سے نشے کی شرح بڑھ جائیگی ۔سپارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آسیہ عارف نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی صحت عامہ کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ 10 اسٹک پیک کی اجازت دینے سے معاشی بوجھ 50 ارب روپے سالانہ تک پہنچ جائیگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ یہ پیک اگرچہ برآمد کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن بالآخر یہ مقامی مارکیٹ میں بھی فروخت کئے جانے ہیں اور اس سے پاکستان کے تمباکو کنٹرول کے ضوابط کمزور ہونے کا خدشہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اور 25 افریقی ممالک میں صحت عامہ کے کارکنان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے مضبوط اور بہترین تمباکو کنٹرول قانون میں ترمیم نہ کرے۔ پاکستان ڈبلیو ایچ او ایف سی ٹی سی کا رکن بھی ہے جس کا آرٹیکل 16.3 بتاتا ہے کہ ہر رکن انفرادی طور پر ایسے کڈی پیک سگریٹ کی فروخت پر پابندی لگائے گاتاکہ کم عمر افراداسے نہ خرید سکیں ، پلمونولوجسٹ انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک ڈاکٹر مدیحہ صدیقی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی قانون پہلے ڈبلیو ایچ او ایف سی ٹی سی کے ساتھ منسلک تھا جس میں بیس (20) سے کم سگریٹ کے پیکٹوں پر مشتمل سگریٹ کے پیکٹوں کی تیاری، فروخت اور درآمد پر پابندی تھی تاہم سوڈان کو برآمد کرنے کے لیے کڈی پیک کی تیاری کی اجازت دیناجو کہ کنونشن کا رکن بھی ہے ڈبلیو ایچ او ایف سی ٹی سی کی ذمہ داریوں سے بغاوت ہے ،
انہوں نے کہاکہ اس عمل میں موثر اقدامات کو اپنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے اور دیگر فریقوں کے ساتھ تعاون کی اشدضرورت ہے،پروفیسر پروفیسر آف پلمونولوجی ڈاکٹر مطیع الرحمان نے کہا کہ تمباکو نوشی سے لاحق خطرات اور تمباکو کی صنعت کے حربوں کے بارے میں عوامی آگاہی اور تعلیم میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کوزیادہ سے زیادہ باخبر رکھ کر اورتمباکو پر قابو پانے کے اقدامات کے لیے مضبوط تعاون پیدا کرکے ہم اپنے مقصد میں کامیاب اور نوجوانوں میں صحت مند طرز عمل کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ تمباکو کی صنعت 10 سگریٹ کا پیکٹ متعارف کراکے نوجوانوں کو اپنے زیر اثر لانی چاہتی ہے اور یہ حکمت عملی صرف اپنی مارکیٹ کو بڑھانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایسے افرادکو اورنواجوانوں کو نشانہ بنایاجائیگا جو بڑا پیکٹ نہیں خریدسکتے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کو ان ہتھکنڈوں اور ان سے صحت عامہ اور معیشت دونوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ،ڈاکٹر خلیل الرحمن نے کہاکہ اس طرح کے کڈی پیک کی فروخت کی اجازت دینے سے تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوگا اوراور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے نوجوانوںکا روشن مستقبل تاریک ہوجائیگا۔انہوں نے مزید کہاکہ سالوں سے پاکستان نے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے کے لیے کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی کے قانون کو نہ صرف متعارف کرایا بلکہ اس پر زبردست عمل درآمد اب بھی جاری ہے اوراب تمباکو کمپنیوں کی طرف سے برآمد کی آڑ میں 10 اسٹک پیک تیار کرنے کامعاملہ صحت عامہ کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ یہ پیک پاکستانی نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ہماری صحت عامہ کی کوششوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے مقامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائینگے۔