چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے سے متعلق اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہےکہ قابل افسوس ہوگا کہ سپریم کورٹ جلد فیصلہ سنانےکے اصول کا اطلاق خود پر نہ کرے۔چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 سے متعلق کیس کے فیصلے میں اپنا اضافی نوٹ لکھا۔اپنے نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا کہ قانون اور روایت کا تقاضا ہے کہ سماعت مکمل ہونے پر عدالت کیس کا فیصلہ جلدکرے۔
چیف جسٹس نے لکھا کہ دسمبر 2023 کو سماعت مکمل کرکے فیصلہ لکھنے کے لیے جسٹس اطہر من اللہ کو معاملہ بھیجا گیا۔چیف جسٹس نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ فیصلہ لکھنے میں 223 دن لگ گئے، جسٹس اطہرمن اللہ نے 18 جولائی کو معاملہ بھیجا، میں نے 19 جولائی کو نوٹ لکھ دیا۔چیف جسٹس نے لکھا کہ میرا ساتھی ججز کو جلد فیصلے کی یادہانی نہ کرانا ذمہ داریوں میں غفلت کے مترادف ہے۔
انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے عدالتوں کو خاص ٹائم فریم میں فیصلہ دینے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں، قابل افسوس ہوگا کہ سپریم کورٹ جلد فیصلہ سنانے کے اصول کا اطلاق خود پر نہ کرے۔چیف جسٹس نے لکھا کہ اکثر حوالہ دیا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر ناانصافی ہے، آئین جلد انصاف کا تقاضا کرتا ہے، ججز اپنے آپ کو جوابدہ ہیں، ججز کو احتیاط اور تندہی سے مقدمات کا فیصلہ کرنےکی کوشش کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں مزید لکھا کہ آرٹیکل 201 کے تحت کسی ہائی کورٹ کا فیصلہ دوسری ہائی کورٹ پربائنڈنگ نہیں، جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ایک ہائی کورٹ کا فیصلہ دیگر ہائی کورٹس پربائنڈنگ ہے۔چیف جسٹس نے لکھا کہ پاکستان وفاق ہے جس کے ہر صوبے کی ہائی کورٹ مکمل آزاد ہے۔