چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے اسلام نے خواتین کو بہت حقوق دیئے ہیں لیکن غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح غلط استعمال کی جاتی ہے۔اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہمارے ہاں خواتین کو مسماۃ بلایا جاتا ہے، ہم اپنا مثبت کلچر بھول گئے ہیں، میں آئین پاکستان سے کچھ مثبت چیزیں بتانا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا آئین کا آرٹیکل 25 مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے لیے اقدام اٹھانے چاہئیں، مرد حضرات بھی شکایات کر رہے ہیں کہ خواتین کے لیے کوٹہ سسٹم ہوتا ہے، قرآن کا پہلا لفظ اقرا ہے جو مرد عورت میں تفریق نہیں کرتا، آئین کا آرٹیکل 25 بھی مساوی سلوک کی بات کرتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح غلط استعمال کی جاتی ہے، اصل معنی تکبر کی بنیاد پر قتل ہے اور اسلام میں تکبر کی سخت ممانعت ہے۔چیف جسٹس پاکستان آئین میں لکھا ہے خواتین کی نمائندگی ہر شعبے میں ہو گی، قومی اسمبلی میں صرف مخصوص نشستوں کے ذریعے ہی خواتین نہیں آتیں، خواتین الیکشن جیت کر بھی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس فاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا قانون شہادت کے آرٹیکل 122کے تحت ثبوت کا سارا بوجھ پراسکیوشن پر ہوتا ہے، اسلام میں خواتین کی کردار کشی قابل سزا جرم ہے، اسلام میں قذف کی سزا 80 کوڑے مارنا ہے، آج تک نہیں سنا کہ کسی کو قذف پر کوڑے مارے گئے ہوں، اسلام میں زنا ثابت کرنے کے لیے 4گواہوں کی شرط لازم ہے، چار گواہوں کی شرط پوری کیے بغیر عورت کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔