سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا غلط تاثرلیا گیا، کوئی آپریشن ہوگا نہ ہی کسی کوگھروں سے نکالا جائے گا۔سکیورٹی ذرائع نے بتایاکہ عزم استحکام کے تحت دہشتگردی کی روک تھام کیلئے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی جائے گی اور منشیات، اسمگلنگ کی روک تھام اور دہشتگردوں کو سزائیں دلوانے کیلئے مؤثر قانون سازی کی جائے گی۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، دہشتگرد خوارج ہیں اور ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق اسمگلنگ اور منشیات کا پیسہ دہشتگردی میں استعمال ہورہا ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔سکیورٹی ذرائع نے بتایاکہ عزم استحکام کے ذریعے اسمگلنگ اور منشیات کی بیخ کنی کی جائےگی، امن کے دیرپا قیام کیلئے مؤثر حکمت عملی ضروری ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انسداد دہشتگردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی۔نیشنل ایکشن پلان سے متعلق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزراء اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے۔
پاکستان تحریک انصاف نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی ہے اور ایوان سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے بھی آپریشن کی مخالفت کی۔بعدازاں وزیراعظم آفس نے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے وضاحت کی کہ بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پرغور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہوگی اور عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔