وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب مالی سال 25-2024 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا کیونکہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا اور آج اسی معاہدے کی وجہ سے ہم اس پوزیشن میں موجود ہیں کہ اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کررہے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ اکنامک سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ 23-2022 کے مالی سال کا جہاں اختتام ہوا تو اس وقت جی ڈی پی میں 2فیصد سکڑاؤ آیا تھا، اسی سال پاکستانی روپے کی قدر میں 29فیصد کی کمی واقع ہوئی اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ گئے کہ ہم صرف دو ہفتوں کی درآمدات کر سکتے تھے۔
اس حکومت میں وزیر خزانہ کی ذمے داریاں سنبھالنے سے قبل نگراں حکومت سے قبل کے دور میں، میں نجی شعبے سے وابستہ تھا اور اس وقت میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف پروگرام میں جانا چاہیے، ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی جانب سے 9ماہ کا آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا اور آج ہم جہاں کھڑے ہیں اس کی بڑی وجہ وہ معاہدہ ہے، اگر وہ نہ ہوتا تو ہم اہداف کی بات نہ کررہے ہوتے، ہم بطور ملک بہت مختلف صورتحال سے دوچار ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں 30فیصد کی نمو دیکھی گئی ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ اس مالی سال میں 6ارب ڈالر ہو گا اور اس وقت نئے مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 20کروڑ ڈالر لگایا گیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں گزشتہ چند ماہ میں استحکام دیکھا گیا ہے جس کی دو تین اہم وجوہات ہیں، پہلی تو یہ ہے کہ نگران حکومت کے دور میں اہم انتظامی اصلاحات کی گئیں، ہنڈی حوالہ کو روکا گیا، اسمگلنگ کو روکا گیا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو چیک کیا گیا، یہ انتظامی اقدامات کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک نے ڈھانچے میں بہتری لاتے ہوئے ایکسچینج کمپنیوں کے کیپیٹل میں جو اضافہ درکار تھا اسے بڑھایا، افواہیں پھیلانے والی ایکسچینج کمپنیوں کو باہر کردیا گیا اور جن بینکوں کے پاس ایکسچینج کمپنیاں تھیں، ان کو کہا گیا کہ آپ مزید بوتھ کھولیں اور جن کے پاس ایکسچینج کمپنیاں نہیں تھیں، ان کو کہا گیا کہ وہ کمپنیاں کھولیں اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس قسم کی سٹے بازی دوبارہ اس ملک میں نہ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈیفالٹ ہونے والے تھے لیکن اس وقت ہمارے پاس 2ماہ کی درآمدات کے پیسے موجود ہیں جس کی مالیت 9ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا معیار بہت شاندار ہے جس کی بدولت ہم اگلے مالی سال کا بہت اچھے اور مضبوط نکتے پر آغاز کریں گے۔انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح 48فیصد کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی تھی لیکن اب مئی میں 11.8فیصد کا عدد مئی میں آیا ہے، میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے، اسی کی وجہ سے بنیادی مہنگائی کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی گزشتہ روز پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی، مانیٹری پالیسی کا اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر ہے اور ان کا اندازہ ہے کہ یہ اگلے مالی سال کے آغاز میں یہ کم ہو کر 10فیصد سے کم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم جب یہاں آئی تو ہماری بہت تعمیری اور معنی خیز بات چیت چل ہوئی اور وہ چل رہی ہے، ہمارا جو 9ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ جس کامیابی مکمل ہوا اور ہم نے اس میں جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، اس ڈسپلن کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان جب کوئی بات کرتا ہے تو ہم اس کو پورا کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کو بڑھانا ہے، تونائی کے شعبے میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی گورننس کو ٹھیک کرنا ہے، اخباروں نے اسٹریٹیجک ایس او ایز کی بات کی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس یا توانائی کے حوالے سے جو پالیسی ہے ہم اس کو نافذ نہیں کرپا رہے اور ہمیں اسے نافذالعمل کرنا ہے، ایف بی آر میں جو لیکیجز ہیں ان کو کم کرنا ہے، یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور ہر کسی کو معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس ملک میں فلاحی کاموں اور خیرات سے اسکول، یونیورسٹی، ہسپتال تو چل سکتے ہیں نہیں ملک نہیں چل سکتے، ملک ٹیکس سے ہی چلے گا، یہ بنیادی اصول ہے۔
کیپیسٹی پیمنٹ اور بجلی کے یونٹ میں مسلسل اضافے کے حوالے سے سوال پر وزیر مملکت برائے توانائی علی پرویز ملک نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹ بہت بڑا بوجھ ہے جس کی وجہ سے ہم بجلی کی قیمتوں میں وہ ریلیف نہیں دے سکتے جو معیشت اور صنعت کو چلانے کے لیے درکار بنیادی چیز ہے اور اسی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ اور باقی چیزوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جب ہم اصلاحات اور نمو کی طرف جائیں گے تو یہ مسئلہ حل ہونا شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پاس جو پلانٹس لگے ہیں ان میں اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ سب کو بجلی مہیا کر سکتے ہیں لیکن معاشی لوڈشیڈنگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہر فیڈر پر جہاں نقصانات زیادہ ہیں وہاں چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے تاکہ گردشی قرضوں پر قابو پایا جا سکے اور ہم جس طرح صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں پیشرفت کررہے ہیں تو وہاں عوام کو ریلیف بھی دیا جا رہا ہے۔
زراعت کے شعبے کو درپیش مشکلات اور ممکنہ بحران کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے، ہم ابھی چین سے واپس آئے ہیں اور وہاں ڈیری اور لائف اسٹاک میں بہت زیادہ مواقع ہیں، یہ سب ہمارے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے حکومت کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس مقرر کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ہم حکومت کو جس جس چیز سے نکال سکیں وہی بہتر ہو گا، چاول اچھا چل رہا ہے ناں جس سے ہم نے اچھا زرمبادلہ کمایا ہے، ہمیں اس سپورٹ پرائس کے چکر سے نکلنا ہو گا اور ہم پاسکو کی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے جا رہے ہیں، ہمیں اسٹریٹیجک ریزرو رکھنے چاہئیں لیکن حکومت کو انہیں پبلک سیکٹر میں نہیں رکھنا چاہیے، جتنا ہم حکومت کو نکالیں گے اتنا ہی ہر چیز میں بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ چین جانے کا مقصد قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کے دوسرے مرحلے کو نئی جلا بخشنا تھا جس میں بنیادی طور پر دونوں حکومتوں کے درمیان کاروبار پر بات ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ ملک میں ایسے اکنامک زونز بنائے جائیں جن میں ہم ایسی اشیا بنائیں جن کو ایکسپورٹ کر سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں بتدریج کمی آئےگی لیکن ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ امپورٹیڈ مہنگائی ہے، پچھلے سال ستمبر اکتوبر میں جن اعشاریوں کی بات کی جا رہی تھی اگر ڈالر اسی سطح پر ہوتا تو آج ہم مہنگائی کی 12فیصد کی شرح کی بات نہ کررہے ہوتے، ہمیں امید ہے کہ چیزیں درست سمت میں جائیں گی لیکن اس میں وقت لگے گا، مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ماننا ہے کہ جولائی 26-2025 تک شرح سود 5 سے 7 فیصد تک آ جائے گی۔
محمد اورنگزیب اگلے مالی سال میں ری پیمنٹ زیادہ بڑا مسئلہ نہیں بنے گا، ہم آئی ایم ایف سے ایک بڑا پروگرام چاہتے ہیں کیونکہ ہم اکنامک استحکام مستقل بنیادوں پر چاہتے ہیں اور جب تک استحکام نہیں آئے گا، ہماری ریٹنگ ایجنسی نہیں ہلیں گی، ہم پہلے پانڈا بونڈ کو متعارف کرانے کے لیے تیار ہیں اور چین میں بھی اس پر بات ہوئی ہے۔