انسانی حقوق کے بارے میں قومی ٹاسک فورس کا چھٹا اجلاس 2 مئی 2024 کو وزارت انسانی حقوق اسلام آبادمیں منعقد ہوا ، جس کی صدارت اعظم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ نےکی ۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی بیرسٹر عقیل ملک ، سیکرٹری، وزارت انسانی حقوق، چیئرپرسن، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق، چیئرپرسن، قومی کمیشن برائے حقوق اطفال، انسانی حقوق کے محکموں کے صوبائی سیکرٹریز، اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سینئر افسران نےشرکت کی
چیئر نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور انہیں بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان نے ایکشن پلان برائے انسانی حقوق کے تحت وفاقی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے مختلف اقدامات کے لیے نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ وزیر نے بتایا کہ اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی کے بعد ملک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی محکموں کا کردار اہم ہے۔ انہوں نے متعلقہ شراکت داروں پر زور دیا کہ وہ کمزور طبقات خاص طور پر خواتین، بچوں، مذہبی اقلیتوں، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں کے تمام نمائندوں کو صورتحال اور پیشرفت کا اشتراک کرنے کی دعوت بھی دی۔
صوبوں سے درخواست کی گئی کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق صوبائی ٹاسک فورسز کو دوبارہ فعال کریں اور مستقل بنیادوں پر اپنے اپنےاجلاس بلائیں۔ ضلعی سطح پر ادارہ جاتی میکانزم کو مضبوط کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ ہیومن رائٹس کمیٹیوں کو دوبارہ فعال کرنا ہوگا۔ چیئر نے لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے زرا ایپ کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس انفارمیشن منیجمنٹ سسٹم کے روابط کو فروغ دینے اور حکومت پنجاب اور سندھ جیسے معاہدوں پر عمل درآمدسیل سیل کے آزاد سیکرٹریٹ کے قیام پر زور دیا۔
ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی صنفی تفاوت رپورٹ 2023 کے حوالے سے جینڈر پیریٹی انڈیکس پر گفتگو کرتے ہوئے، جس میں پاکستان 146 ممالک میں سے 142 ویں نمبر پر ہے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے رپورٹ کے تجزیے کے لیے ایم این اےبیرسٹر عقیل ملک کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ جس کا کام وجوہات جاننے اور پاکستان کی رینکنگ کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے مطلوبہ مداخلت کی سفارشات پیش کرنا ہے اس کے علاوہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حوالے سے پاکستان کی نچلی رینکنگ، جس کی عکاسی یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں ہوئی ہے، پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صوبائی نمائندوں سے درخواست کی گئی کہ وہ بین الاقوامی تناظر میں صنفی برابری کے انڈیکس کے حوالے سے پاکستان کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں وفاقی ادارہ شماریات کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
چیئر نے چیئرپرسن این سی آر سی سے کہا کہ وہ شادی کے لیے بچوں کی عمر کے بارے میں صوبوں کے درمیان قانون سازی کے لیے اقدامات کریں اور شادیوں کی رجسٹریشن کو CNICs کی فراہمی کے ساتھ جوڑنے کے لیے قانون سازی کے اقدامات تجویز کریں۔ اس سلسلے میں شادی کے لیے کم عمری کی نشاندہی کے لیے مسلم ممالک کا قانون سازی کا تجزیہ کیا جائے۔ اسی طرح اندرون ملک بچوں کی جبری مشقت کے معاملے کے سلسلے میں چیئر نے وفاقی اور صوبائی قوانین میں عمر کو ہم آہنگ کرنے کی ہدایت کی۔ اور وزارت قانون و انصاف وزارت انسانی حقوق کے ساتھ مل کر نادرا کے ذریعے شناختی کارڈ جاری کرنے کا طریقہ کار تیار کر سکتی ہے۔ مزید برآں، خیبرپختونخوا حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ دوسرے صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی طرز پرمعذور افراد کے حقوق سے متعلق اپنے مجوزہ قانون کو تیز کرے۔