پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مخلوط حکومت بنتی ہے تو میں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دوں گا۔برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے کردار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پی ڈی ایم کے کردار سے تو پہلے ہی مایوس تھا، اب میاں صاحب کے کردار سے سخت مایوس ہوں اس لیے ہمارے فاصلے کافی واضح ہیں اور اگر انہوں نے پرانی سیاست ہی کرنی ہے تو میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ میری نظر میں عمران خان اور نواز شریف دونوں پرانی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے بار بار ناکام ہوتے دیکھی ہے، میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) میں سے کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔سابق وزیر خارجہ نے آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنانے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ ملک کے نظام کو بہتری کی جانب لے جانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جمہوریت اور ریاست کو اپنی ذاتی انا کی وجہ سے نقصان پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے انتخابات میں زیادہ آزاد امیدواروں کے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ہونے کے تاثر کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو پنجاب میں جو مسلم لیگ(ن) کے مخالف ہیں اور آزاد ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک زمانے میں پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے لیکن اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو دو مقدمات میں ہونے والی سزاؤں کو بلاول نے مکافات عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2013 اور 2018 میں بھی بہت سے سیاستدان الیکشن نہیں لڑ سکے تھے، اس وقت جو سیاست دان سب سے زیادہ خوش تھا وہ عمران خان تھا، اگر آج وہ آؤٹ ہیں تو انہیں اپنے سیاسی فیصلوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔
نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ الیکشن لڑنے والے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست ہمارے پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اور اسے دفن کر کے ہمیں مل کر پاکستان کے مسائل حل کرنے چاہئیں، یہ کام عمران خان اور نواز شریف نہیں بلکہ صرف پیپلز پارٹی کر سکتی ہے۔
ملک کی سیاست اور انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے سوال پر بلاول نے کہا کہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی ہو گی اور سیاستدانوں کو سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا پڑے گا اور اگر وہ ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو پھر دوسروں سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری عزت کریں۔