1988 ءکے پہلے انتخابات تھے جو جماعتی بنیاد پر ہوئے مرکز میں پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تاہم پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنی اور سب سے بڑاصوبہ ہونے کی وجہ سے مرکز کے ساتھ ہر وقت سینگ اڑائے رکھے یوں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مدت کے درمیان میں ٹوٹ گئی ۔ انتخابات کا عمل دہرایا گیا اب کی بار میاں محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد وزیر اعظم پنجاب بنے لیکن ان کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کئے بغیر اختتام کو پہنچی پھر انتخابات ہوئے بے نظیر بھٹو کو پھر اقتدار ملا اور دوسری بار بھی مدت پوری کئے بغیر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر لغاری کے ہاتھوں واپس عوام میں چلی گئیں انتخابات کی رسم ایک دفعہ پھر نبھائی گئی اور عوام نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ میاں نواز شریف کو دوسری دفعہ وزیر اعظم منتخب کرلیالیکن جنرل پرویز مشرف نے مدت پوری ہونے سے پہلے ہی دھڑن تختہ کردیا اور میاں صاحب کو اقتدار کے ایوانوں سے بھی نکال دیا گیا اور ملک سے بھی نکال دیا گیا۔اس کے بعد بھی انتخابات کی رسم کو دہرایاجاتارہا لیکن ایک بات واضح رہی کہ پنجاب ہمیشہ بڑاصوبہ ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے لئے درد سر بنارہا۔ ہم ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ جس سیاسی پارٹی کو پنجاب نے چاہا ہی مرکز میںحکومت بناسکتاہے ۔ دیگر تینوں صوبے مل کر بھی کسی ایک جماعت یا جماعتوں کے اتحاد کو مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اگر کسی اتحاد کو حکومت مل بھی گئی تو پنجاب نے پھر اسے چلنے نہیںدیا یوں وہ اپنے دل کے ارماں دل میں ہی لئے اقتدار کے ایوانوں سے واپس عوام میں لوٹ گئے۔
پنجاب کے بڑے صوبہ ہونے اور اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کو ختم کرنے کے لئے کئی اقدامات ہوئے سرائیکی صوبہ یا پھر جنوبی پنجاب کے نام سے پنجاب کو دو صوبے بنانے کے لئے اپنی سی سعی کی گئی تاہم کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہوسکی یوں پنجاب کا پلڑا پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ بھاری رہا۔ نوے کی دھائی اور اس کے بعد بھی صوبہ پنجاب ہمیشہ گیم چینجر رہا اور مرکز کی حکومت ہمیشہ اس کی مرہون منت رہی۔ چونکہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے تو پھر جس بھی سیاسی جماعت کو مرکز میں حکومت بنانے کی ضرورت پڑی اسے تین صوبوں کی ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی قومی اسمبلی کی کافی تعداد میں نشستوں کی ضرورت رہی ۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی حکومت پنجاب کے صوبہ میں بھی ہونی چاہئے وگرنہ بڑا صوبہ ہمیشہ سینگ اڑاتارہے گا اور مرکز میں حکومت کرنی ممکن نہیں رہے گی۔
یہ تجزیہ صرف میرا ہی نہیںہر ایک کا ہے بلکہ ہمارا قاری تو ہم سے بھی بہتر سمجھ سکتاہے ۔ جب عام آدمی کو اس کی سمجھ آگئی تو پھر تمام کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہوا اسی لئے کسی ایک صوبہ یا ایک سے زائد چھوٹے صوبوں میں اکثریت ہونے کے باوجود ہر سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو پنجاب سے بھی اکثریت کی ضرورت رہی۔ لیکن گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے ایک نئی تھیوری دےکر پاکستان بھر کے سیاسی پنڈتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی حیران و پریشان کردیا۔کیونکہ گزشہ تین دھائیوں کے تجربے اور سیاسی تجزیوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ انتخابات میں تبدیلی صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام لاتے ہیں اور ان سادھ لوح ووٹروں کو کوئی بھی آسانی سے بے وقوف بناسکتاہے۔عوام کو بے وقوف بنانے کی بات سے تو میں قطعاً متفق نہیں اور اس پر غصہ مجھے بھی ہے تاہم اس وقت تو بات کرتے ہیں گیم چینجر ہونے کی مجھے تو ان کے اس بیان سے خوشگوار حیرت ہوئی بلکہ پورے ملک کے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میاں صاحب نے اپنے اس مشاہدہ کی مثال یوں دی کہ ۳۱۰۲ءمیںخیبر پختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا اور تحریک انصاف کی حکومت نے پورے پانچ سال اس صوبہ پر حکومت کی۔ چونکہ یہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ تھی لہٰذہ ۸۱۰۲ءکے انتخابات میں صوبہ نے نہ صرف بلاشرکت غیرے بھاری اکثریت سے خیبر پختونخوا میں حکومت دی بلکہ یہ لہر پورے پاکستان میںبھی پھیل گئی اور یوں برسوں بعد مسلم لیگ ن کو اکثریت سے اکلیت بنانے میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے اس اقدام کا سہرا بھی میاںنواز شریف نے صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام پر ڈال دیا کہ اگر وہ دوبارہ پاکستا ن تحریک انصاف کو ووٹ نہ دیتے تو پورا پاکستان بلعموم اور صوبہ پنجاب بلخصوص ان کی تقلید نہ کرتا اور پنجاب میں کبھی بھی تحریک انصاف کی حکومت نہ ہوتی۔ جیسے میں نے پہلے کہاکہ میاں نواز شریف صاحب کی سوچ پر حیرت ہوئی اور اس سوچ پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل خوش اس بات پرہواکہ دھائیوں بعد ہی سہی ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا اس قابل ہوگیا کہ نہ صرف وہ اپنے فیصلے خود کررہاہے بلکہ دیگر صوبوں کو بھی اپنی تقلید کی طرف قائل کرلیاہے۔ اس پر صوبہ بھر کے عوام کو دل کھول کر مبارکباد دیتاہوں۔
جہاں تک میاں نواز شریف کی اس بات سے تعلق ہے کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتاہے تو ان کی یہ غلط فہمی دورکئے دیتے ہیں کہ اس وقت اگر سب سے زیادہ جاگے ہوئے اور سمجھ بوجھ والے ووٹر اگر ہے تووہ اس صوبہ کا ہے۔ اس صوبہ نے ماضی قریب میںدین کی سوج بوجھ رکھنے والے متحدہ مجلس عمل کو صوبہ میں پورے پانچ سال حکومت کرنے کا حق دیا اور جب وہ خیبر پختونخواکے عوام کے معیار پر پورے نہیں اترے تو اگلی دفعہ وہ اتنے ووٹ بھی نہ لے سکے کہ نئی حکومت میں ایک آدھ وزارت بھی لے سکیں۔ صوبہ کے حقوق کی بات کرنے والے عوامی نیشنل پارٹی کو بھی پارلیمانی مدت پورے کرنے کا مینڈیٹ دیا انہوں نے صوبہ کو کئی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ صوبہ کا نام بدلنے کا بھی کارنامہ انجام دیا تاہم اگلی دفعہ انہیں بھی موقع نہیں ملا۔ میں یہ بات بڑے فخر سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے صوبہ کے عوام پورے باشعور ہیں اور وہ باریاں بدلنے والے کو دوبارہ موقع کم ہی دیتے ہیں۔