جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اس وقت ہمارا انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) سے اتحاد پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور ہم خیبر پختونخوا اور سندھ میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک کے دو صوبے بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، پرسوں نوشہرہ میں ہمارے جمعیت علمائے اسلام کے ایک بزرگ، بیٹے اور داماد کو قتل کردیا گیا، وہ شہید ہو گئے، پشاور میں واقعات ہوئے ہیں، باجوڑ سانحے کے بعد بھی ہمارے چار پانچ ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، لکی مروت میں کوئی پولیس نہیں ہے، رات میں سارے علاقے مسلح لوگوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور دن میں پولیس آجاتی ہے تو اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا انتخابی مہم چلائی جاسکتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں لیکن الیکشن کے لیے پرامن ماحول دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے گزشتہ حکومت اور اس کے بعد بھی اب تک جو ہمارے تعلقات رہے ہیں، تین، ساڑھے تین سال ہم نے تحریک بھرپور تعاون اور اتحاد کے جذبے سے چلائی ہے اور ہم وہ الیکشن اور اس کے بعد بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو اس حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے کہا کہ ہم دونوں جماعتوں نے کمیٹیاں بنا لی ہیں، دونوں نے مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی اور ہم نے خیبر پختونخوا اور انہوں نے پنجاب کے لیے ٹیم بنا دی ہے اور اس سلسلے میں دونوں طرف سے رابطے ہو گئے ہیں اور باقی صوبوں میں بھی ہم اسی عزم کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور ہم ایک دوسرے کے بنیادی اتحادی کہلانے کے موڈ میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں انتخابات کے لیے تیار ہوں لیکن ہمیں اس کے لیے ماحول دیا جائے، یہاں لاہور میں بیٹھ کر ماحول نہیں دیا جا سکتا ہے، بہاولپور میں خیرخیریت ہے، ملتان میں بھی ٹھیک ٹھاک صورتحال ہے لیکن ذرا ہماری طرف تو آئیں، اگر میرے مہمان ہوں گے تو میں آپ کو مغرب کے بعد گھر سے نہیں نکلنے دوں گا۔
پیپلز پارٹی سے تعلقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے سربراہ نے کہا کہ آپ ہمارے تعلقات خراب نہ کریں تو ہم گزارہ کر لیں گے لیکن اس وقت ہمارا انتخابات کے حوالے سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
ایک دوسری جماعت پر سندھ اور بلوچستان میں حملہ نہ ہونے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس میں کیوں دلچسپی لیں، اگر خدانخواستہ ان کا نقصان ہو تو کیوں ہو، اگر ہم نے جانی نقصان کرنے ہیں تو پھر ہم پارلیمنٹ میں کیوں ہیں، ہم پارلیمانی سیاست کیوں کر رہے ہیں، ہم آئین اور جمہوریت کی سیاست اسی لیے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ماحول کے ان لوگوں سے بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کیا جنہوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے اور اس کی سزائیں ہم اب تک پا رہے ہیں، سزا بھگت رہے ہیں، یہ مناسب نہیں ہو گا کہ میں کسی اور پارٹی پر تبصرہ کروں کہ میرے اوپر کیوں حملے ہو رہے ہیں اور آپ پر کیوں نہیں ہو رہے۔
پی ٹی آئی کے سیاستدانوں کی وفادارایاں تبدیل کرانے کے حوالے سے سوال پر سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ یہاں پر صورتحال کچھ اور ہے، جن لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں ان کو جبری طور پر پی ٹی آئی کا وفادار بنایا گیا تھا، سارے مجبور شامل ہوئے تھے، ان کو زبردستی بلایا گیا تھا لہٰذا انقوتوں اور شخصیات کو طشت از بام کردینا چاہیے جنہوں نے لوگوں کے ہاتھ مروڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کیا اور جو لوگ وہاں گئے ہیں انہوں نے خود کہا کہ ہم کیا کریں، ہم تو مجبور ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ایک سیاسی جماعت کے لیے راہیں ہموار کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی کے لیے راہیں ہموار کرنے والا تجربہ ناکام ہے، کسی کے لیے راہیں ہموار نہیں کی جاسکتیں ، راہیں اپنے منشور، جدوجہد، تحریک اور عوام کو آپ کتنا اعتماد میں لے سکتے ہیں، اسی سے بنتی ہیں اور پھر فیصلہ عوام کرتے ہیں کیونکہ ووٹ انہوں نے دینا ہے۔