وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر 28 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی سفارش کردی۔وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے ای سی ایل کے اجلاس میں وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی اور وزیر مواصلات و ریلویز شاہد اشرف تارڑ نے شرکت کی، اجلاس میں وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کے افسران بھی شریک تھے۔
اجلاس میں ای سی ایل سے متعلق مختلف نوعیت کے کیسز کا جائزہ لیا گیا، ذیلی کمیٹی نے مختلف محکموں اور اداروں کی طرف سے بھیجے جانے والے 41 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔
13 مختلف نوعیت کےکیسز کو ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش بھی کی گئی، عدلیہ کی ہدایات پر 7 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش کی گئی، نظر ثانی کے لیے پیش کی گئی اپیلوں میں سے 3 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش کی گئی۔
ذیلی کمیٹی کی سفارشات حتمی منظوری کے لیے نگران وفاقی کابینہ کو ارسال کی جائیں گی، نیب کی سفارش پر 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل (القادر ٹرسٹ کیس) میں عمران خان سمیت 29 افراد کو ای سی ایل پر ڈالنے کی سفارش کی گئی۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
سابق وزیراعظم پر این سی اے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق اور دستاویزات کو چھپا کر وفاقی کابینہ کو گمراہ کرنے کا بھی الزام ہے۔
برطانیہ سے موصول ہونے والی اس رقم کو قومی خزانے میں جمع ہونا تھا لیکن کراچی میں غیر قانونی طور پر اراضی پر قبضہ کرنے پر بحریہ ٹاؤن پر عائد 450 ارب روپے کے جرمانے کی مد میں یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی گئی تھی۔
اس مقدمے میں عمران خان کو ابتدائی طور پر مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس میں بھی 14 نومبر کو گرفتار کر لیا تھا، جس کے بعد احتساب عدالت اسلام آباد نے نیب کو ان سے تفتیش کی اجازت دے دی تھی۔