سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی فاروق ایچ نائیک کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک سماعت ملتوی کر دی۔ آج کی سماعت کے حکمنامے میں سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو آئندہ سماعت تک حتمی فیصلے سے روک دیا، عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت تک احتساب عدالتیں حتمی فیصلہ نہ سنائیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کیلئے مقرر کی جائے، یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔حکمنامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ 21 اپریل سے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق کیا گیا، عدالت کو بتایا گیا کہ نیب ترمیم کے 3 رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو فیصلہ دیا، مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کو 5 رکنی لارجر بینچ کو سننا چاہیے تھا، فاروق ایچ نائیک نے کہا انہیں سنے بنا فیصلہ دیا گیا۔
نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں، مخدوم علی خان نے التوا کی درخواست دی ہے، کچھ گزارشات پیش کر سکتا ہوں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ اور درخواستیں بھی آئی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کرنے کیلئے تیار ہوں۔اسی دوران وکیل درخواست گزار فاروق نائیک بھی روسٹرم پر آ گئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فاروق نائیک صاحب آپ عدالتی فیصلے کی حمایت میں ہیں یا مخالفت کر رہے ہیں؟، وکیل فاورق نائیک نے کہا کہ نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہا ہوں۔
وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں نے درخواستیں کچھ فریقین کی جانب سے دائر کی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے؟، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرے مؤکل نیب ملزم ہیں، انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے 2 نظرثانی کی درخواستیں دی تھیں اور ایک اپیل دائر کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اور نظرثانی کا سکوپ الگ، الگ ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نظر ثانی کی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، میری گزارش ہوگی کہ اپیل میں مجھے سنا ضرور جائے۔چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانونی سوال ہے جب آپ فریق نہیں تو سنا کیسے جائے؟، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سامنے کیوں نہیں کھڑے، اٹارنی جنرل کا شیلٹر کیوں لے رہے ہیں؟، بعد میں چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل کو درخواست پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لکھا نیب ترمیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت 5 رکنی بینچ نے سننا تھا، آپ اس نکتے پر قائم ہیں تو پھر اس نکتے پر مطمئن کریں، اگر اس نکتے پر مطمئن کر لیا تو اپیل کے میرٹس پر نہیں جائیں گے، ایسی صورت میں ہم ترامیم کے خلاف درخواستیں بحال کر کے نیا بینچ بنا دیں گے یا پھر اس نکتے کو واپس لے لیں گے۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسا نہ کریں، موجودہ اپیلیں ہی چلائیں، ایسا کیا تو نیب کورٹس میں مقدمات چلنا شروع ہو جائیں گے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں یہ گراؤنڈ لے رکھی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ساری نیب ترامیم فیصلے سے اُڑ گئیں یا کچھ بچی ہیں؟، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو تیسری ترامیم آئیں انہیں چھیڑا ہی نہیں گیا، پہلی اور دوسری ترامیم میں سے کچھ ختم کر دی گئیں کچھ باقی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں جس گراؤنڈ پر انحصار کیا گیا ہے اس کا تیسری ترامیم سے تعلق ہے، تیسری ترامیم کو چھیڑے بغیر وہ فیصلہ کیسے کر سکتے تھے؟۔ مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ پہلی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تو دوسری ترامیم آئیں، پھر درخواست گزار نے درخواستوں میں ترامیم کیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تیسری ترامیم کب آئیں جس پر مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ تیسری ترامیم مئی 2023ء میں آئی ہیں۔
چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیے کہ پھر تو کافی وقت تھا تیسری ترامیم پر بھی، درخواست گزار اپنی درخواست بدل سکتا تھا، پھر تو یہ بات درست ہے کہ اگر ترامیم کالعدم ہونا تھیں تو تیسری ترامیم بھی کالعدم ہونا تھیں، فیصلے میں اگر تیسری ترامیم کا ذکر ہے تو پھر ان پر فیصلہ بھی ہونا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت نیب ترامیم کیس 5 رکنی بینچ کو ہی سننا چاہیے تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل ہوا تھا، ایکٹ کبھی معطل نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، ہوسکتا ہے اس فیصلے میں اس نکتے پر بھی فیصلہ موجود ہو، ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے، ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے، ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے۔بعدازاں عدالت نے حکمنامہ جاری کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔