پاکستانی اہل قلم نے فلسطین کے حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے اپنے شعروں اور تحریروں میں ان پر ہونے والے مظالم کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے لکھا ہوا ادب عالمی معیار کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو یکجا کر کے شائع کیا جائے۔ یہ بات ڈاکٹرانعام الحق جاوید نے ادارہ ادب وثقافت کے زیر اہتمام منعقدہ ادبی نشست میں کہی۔ وہ اس نشست کی صدارت کر رہے تھے۔ تقریب میں اہل قلم اور صحافیوں پروفیسر مقصود جعفری، حفیظ خان، طارق خورشید، بشارت علی سید، اکبر حسین اکبر، خالد عظیم، انیس احمد، عدیل رضا، طارق ہاشمی، بلال ڈار، طارق شاہد، سعیدہ طارق اور اویس جان نے شرکت کی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا کہ 80 کی دھانی میں اسلام آباد کی ادبی فضا بہت بھرپور تھی۔
آج کل وہ گھما گھیمی نہیں ہے۔ علمی ادبی اداروں کاموں میں بیروکریٹک رویہ زیادہ ہو گیا ہے۔ بنیادی نوئیت کے کاموں پرزیادہ توجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی ادبی رویات دم توڑتی جارہی ہیں۔ ادبی میلوں میں بھی مخصوص اہل قلم ہی نظر آتے ہیں۔ اس دور میں جو شاعر سامنے آتے ہیں وہ بہت جلدی منظرعام سے غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگ آجاتے ہیں۔ مستقل مجاری سے ادب کی طرف مائل نہیں ہیں شوقیہ ادب کی طرف آتے ہیں۔ پروفیسر مقصود جعفری نے کہا شاعر امن کے داعی اور پیامبر ہیں۔ وہ انسانیت کے امین ہیں۔ جو شاعر سخت حقیقتوں سے غافل ہیں اور حالات حاضرہ اور وقت کی آواز سے بے خبر ہیں، وہ شاعر نہیں ہیں۔ حقیقی شاعر صرف تیز شعور اور زندہ ضمیر والے ہی ہوتے ہیں۔ فلسطین میں جنگ کے خلاف لکھنے والے اور امن کو فروغ دینے والے شاعر محبت اور انسانیت کے علمبردار ہیں۔ ادارہ ادب و ثقافت کے صدر طارق شاہد نے شرکا کا شکریہ اد کیا۔