وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کئی ہفتوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والی بات چیت انتہائی مثبت پر پہنچی ہے۔
لاہور میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عوام پر تکالیف، معاشی بوجھ کی وجہ جاننا ضروری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایثار اور قربانی کا جذبہ خاندانوں اور قوموں کو مشکلات سے پاک کرتا ہے، قومی یکجہتی اور یکسوئی اور شعبانہ روز محنت ایسے عوام ہیں جو قوموں کو مشکلات سے نکالتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018 تک پاکستان نواز شریف کی قیادت میں بہت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور ہمارے بدترین ناقدین کو بھی اس پر اختلاف کرنے کی جرئت نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری ترقی کی شرح 6.2 تھی اور پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شمار ہونے لگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں بڑی تیزی سے سی پیک معاہدے پر عمل ہوا، بجلی کے منصوبے مکمل ہوئے، پن بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہوا، سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور شمسی توانائی سے منصوبے لگائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دوسری قوموں کے ساتھ تیزی سے اس دوڑ میں بھاگ رہا تھا پھر بدترین دھاندھلی کے ذریعے عمران نیازی کو اقتدا رکے منصب پر زبردستی بٹھایا گیا اور 2018 تاریخ کا بدترین الیکشن تھا اور پھر اس کے نتیجے میں کیا ہوا کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ گفتگو میں اتنی ہچکچاہٹ دکھائی کہ اس میں 6 ماہ لگ گئے کہ گفتگو کرنی ہے یا نہیں کرنی اور جب معاہدہ ہوا تو سنگ دلی کے ساتھ اس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پاکستان کے وقار کو خاک میں ملانے کی ناپاک کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کا ہم پر سے اعتماد اٹھ گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عالمی وبا کورونا کے دوران پوری دنیا میں تباہی آئی لیکن اس دوران جن چیزوں کو حاصل کیا جا سکتا تھا وہ بھی مجرمانہ غفلط کی وجہ سے گنوائی گئی، مثلا قدرتی گیس 3 ڈالر پر آگئی تھی مگر اس کے باجود بھی اس کا سودہ نہیں کیا گیا، آج بڑی محنت کے بعد آذربائیجان کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت نے حتی الامکان کوشش کی، انسان ہیں ہم سے بھی ضرور غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن جان بوجھ کر قومی خزانے میں خیانت نہیں کی گئی، اگر کوئی ایسا مثال ہے تو میرے سامنے رکھیں میں اس پر انکوائری کروں گا، اس 14 ماہ میں ہم نے جو گندم یا کھاد خریدی وہ سب سے کم بولی دینے والوں سے خریدے گئے جس میں اربوں روپے کی بچت ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سابقہ حکومت نے معشیت کو بری طرح سے تباہ کیا، اسی طریقے سے جو فتنہ سازی کی گئی، سورش پیدا کی گئی اور پاکستان کو سیاسی غیرمستحکم کرنے کے لیے زور لگایا گیا اور دن رات بیانیے بنائے گئے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کی گئیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا گیا اور باہر ممالک اور اداروں کو خبردار کیا گیا کہ اگر آپ نے پاکستان کی مدد کی تو امپورٹڈ حکومت سب کچھ برباد کردے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیرس اجلاس میں سری لنکا کے صدر نے آئی ایم ایف سربراہ سے ملاقات کرانے میں مدد کی لیکن یہاں دوست نما دشمن پاکستان کو سری لنکا بنانے کی باتیں کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میری آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک ایک گھٹنے سے زیادہ گفتگو ہوئی، خطوط لکھے اور اسحٰق ڈار اور ان کی ٹیم نے شرائط پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی، اسٹیٹ بینک سمیت دیگر اداروں نے حصہ ڈالا لیکن اس کے باجود بھی بات نہیں بن رہی تھی لیکن پھر پیرس میں آئی ایم ایف سربراہ سے طویل ملاقات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ اب 30 جون قریب ہے وقت نہیں رہا، پھر میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی کونی شرائط تسلیم نہیں کی، ہم سب نے اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگالیا ہے صرف اس لیے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے نہ دیں اور پاکستان کے استحکام کے لیے ہم نے کڑوے فیصلے کیے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ 2 ارب ڈالر کے گیپ کا کیا ہونا ہے جس کے بعد میں نے اسحٰق ڈار سے رابطہ کیا اور کہا کہ پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے کچھ کریں، مجھے وہاں پتا چلا کہ اسلامک ورلڈ بینک کے چیئرمین آئے ہوئے اور میں نے اپنے سفیر کے ذریعے ان کو ملاقات کے لیے پیغام بھیجا اور ان سے ملاقات کرکے 2 ارب ڈالر دینے کی درخواست کی جس کے بعد انہوں نے واپس جاکر ایک ارب ڈالر کا اعلان کیا۔