فرانس میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 150 افراد کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مظاہروں کے دوران سرکاری عمارتوں پر حملوں کے واقعات بھی رونما ہوئے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔فرانس سمیت کئی شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، مظاہرین نے پولیس پر حملے کیے اور کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی۔
ان جھڑپوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے ایمانوئل میکرون نے وزرا کے ہنگامی اجلاس میں شرکا کو صورتحال سے ذمہ داری سے نمٹنے کی ہدایت کی۔2 روز قبل پیرس میں ٹریفک اسٹاپ کے دوران پولیس کی جانب سے 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کو پولیس کی جانب سے گولی مارنے کے واقعے نے ملک کے مضافاتی علاقوں کو راتوں رات ہلا کر رکھ دیا، مظاہرے پھوٹ پڑے اور مشہور شخصیات نے بھی اس قتل پر غم و غصے کا اظہار کیا۔خیال رہے کہ پولیس نے قتل کے بارے میں ابتدائی بیان میں جھوٹ کا سہارا لیا، پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ 17 سالہ نوجوان نیل ایم کو 2 پولیس اہلکاروں نے منگل کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پکڑ لیا۔
پولیس نے ابتدائی طور پر بتایا تھا کہ ایک افسر نے نوجوان پر گولی چلائی کیونکہ وہ اپنی گاڑی افسر کی طرف چلا رہا تھا لیکن سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو اس مؤقف کے برعکس کررہی تھی۔فوٹیج میں دکھایا گیا کہ 2 پولیس اہلکار اسٹیشنری کار کے کنارے کھڑے ہیں، جن میں سے ایک ڈرائیور کی طرف ہتھیار سے اشارہ کر رہا ہے جہاں ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ ’تمہیں سر میں گولی لگنے والی ہے۔‘ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کار کے چلتے ہی پولیس افسر پوائنٹ بلینک فائر کرتا ہے جس کے فوراً بعد کار حادثے کا شکار ہوجاتی ہے اور کچھ ہی دیر میں کار سوار کی موت ہوگئی۔