برطانوی کرکٹ میں پائے جانے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے وہ آزاد رپورٹ جس کا طویل عرصے سے شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا وہ منظر عام پر آگئی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی کرکٹ میں نسل پرستی، جنس پرستی، طبقات پرستی اور اشرافیہ پن بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ایکویٹی ان کرکٹ (آئی سی ای سی) نے اپنی 2 سالہ تحقیقات کے نتائج جاری کردیے۔
انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ایکویٹی ان کرکٹ نے اپنی رپورٹ میں 44 سفارشات پیش کی ہیں، ان میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کو اپنی ناکامیوں پر غیر مشروط طور ٌپر عوام سے معافی مانگنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
چیئرمین ای سی بی رچرڈ تھامسن نے کہا کہ ہم اس موقع پر کرکٹ کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے استعمال کریں گے۔
ای سی بی نے آئی سی ای سی کا اعلان مارچ 2021 میں بلیک لائیوز میٹر اور می ٹو جیسی عالمی تحریکوں کے تناظر میں کیا تھا۔
کمیشن نے رواں سال نومبر میں آن لائن شوہد دینے کے لیے سہولت کا اعلان کیا تھا جس پر رد عمل دیتے ہوئے 4 ہزار 156 جوابات موصول ہوئے، مارچ 2022 میں، تحریری شواہد کی کال پر 150 سے زیادہ جوابات آئے۔
کمیشن کو ثبوت دینے والوں میں انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان بین اسٹوکس، خواتین ٹیم کی کپتان ہیتھر نائٹ، سابق کپتان جو روٹ، ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان ایون مورگن اور یارکشائر کے سابق کھلاڑی اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والے کھلاڑی عظیم رفیق بھی شامل ہیں۔
ہولڈنگ اپ اے مرر ٹو کرکٹ کے عنوان سے 317 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں آئی سی ای سی نے نتائج اخذ کیے کہ کھیل کے اندر “اسٹرکچرل اور ادارہ جاتی نسل پرستی بدستور موجود ہے۔
کھیل میں ہر سطح پر خواتین کے ساتھ مردوں کے ماتحت کے طور پر سلوک کیا جاتا ہے، کرکٹ میں اشرافیہ پن اور طبقاتی تفریق رائج ہے۔
سیاہ فام شہریوں کی کرکٹ ناکام ہو چکی اور ای سی بی کو اسے بحال کرنے کے لیے منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔
کئی لوگ جنہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ حکام پر عدم اعتماد کی وجہ سے اس کو رپورٹ نہیں کرتے۔
پیشہ ورانہ اور تفریحی دونوں سطح پر کھیلو میں امپائر باقاعدگی سے بدسلوکی کو نظر انداز کرتے ہیں اور شکایات مسترد کرتے ہیں۔
آئی سی ای سی کی چیئر پرسن نے لکھا تلخ حقیقت ہے کہ کرکٹ ’سب کے لیے کھیل‘ نہیں ہے اور ضروری ہے کہ اس مشن کو حاصل کرنے کے لیے ضروری کام فوری طور پر شروع کیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ اب فوری طور پر قیادت کی ضرورت ہے، امید ہے کہ اس رپورٹ میں دی گئی سفارشات کو آگے بڑھانے میں قائدانہ عہدوں پر موجود تمام افراد اپنا کردار ادا کریں گے۔
رپورٹ واضح کرتی ہے کہ تاریخی انفرا اسٹرکچر اور نظام امتیازی سلوک کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور اس میں اس ناکامی کی وجہ سے ہونے والی تکلیف اور کھیل سے محرومی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
سفارشات میں انگلینڈ مرد و خواتین ٹیموں کی میچ فیس کو فوری طور پر مساوی کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
یارکشائر کے سابق اسپن باؤلر عظیم رفیق کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی روشنی میں ای سی بی نے نومبر 2021 میں نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبہ شائع کیا تھا۔
آئی سی ای سی نے کہا کہ ثبوت کے لیے اس کی کال پر اہم رد عمل ملا جب کہ عظیم رفیق نے کہا کہ انگلش کرکٹ ادارہ جاتی طور پر نسل پرست ہے۔
جواب دہندگان میں سے 50 فیصد نے گزشتہ پانچ برس کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کی وضاحت کی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد 87 فیصد، 82 فیصد بھارتی اور تمام سیاہ فام جواب دہندگان میں سے75 فیصد لوگ شامل تھے۔
اپنے ثبوت میں ای سی بی نے سیاہ فام کرکٹرز کی پوری نسل کھونے کا اعتراف کیا۔
رپورٹ پر رد عمل دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں عظیم رفیق نے کہا کہ میں رپورٹ کے نتائج کا خیرمقدم کرتا ہوں اور اس انکوائری میں کیے گئے غیر معمولی کام کو سراہتا ہوں۔
’جنس پرستی اور عورتوں کے خلاف سوچ کا کلچر ’
رپورٹ میں خواتین کی کھیل میں مثبت پیش رفت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن فیصلہ سازی میں خواتین کی کم نمائندگی، میڈیا پر کم نمائش، پریمیئر گراؤنڈز میں کھیلنے کے کم مواقع، کٹ اور آلات کے معاملے میں عدم مساوات کو بھی اجاگر کیا گیا۔
آئی سی ای سی نے جنس پرستی اورصنفی بدسلوکی کے کلچر کے واضح ثبوت سنے اور مردوں کی جانب سے خواتین کی طرف ناپسندیدہ اور بن بلائے پیش قدمی کرنے کی مثالیں سنی۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں میں کرکٹ کی کمی اور نجی اسکولوں میں اس کا بندوبست بھی جزوی طور پر اشرافیہ اور طبقاتی بنیاد پر امتیازی سلوک کا ذمہ دار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نجی اسکولوں میں موجود ٹیلنٹ پاتھ وے سسٹم جنسی، طبقاتی اور نسلی مساوات اور شمولیت میں رکاوٹ ہے، یہ نظام اسٹرکچرل عدم مساوات کو تقویت دیتا ہے جو کہ انگلینڈ اور ویلز میں کرکٹ میں موجود ہے۔