جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی انکوائری کمیشن نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کا کیس سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض کردیا۔انکوائری کمیشن کے سیکرٹری نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ہے۔وفاق کے بعد آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائےگئے انکوائری کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہےکہ آئینی درخواستیں قابل سماعت نہیں، انکوائری کمیشن نے 5 رکنی بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کرتے ہوئےکہا ہےکہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ججز کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا گیا، بہتر ہوگا ججزکمیٹی کی جانب سے بینچ کی تشکیل تک 5 رکنی بینچ سماعت مؤخر کردے۔ انکوائری کمیشن کا کہنا ہےکہ کمیشن کو سنے بغیر اس کی کارروائی روک دی گئی، مبینہ آڈیولیکس کے دیگر افراد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی نہ ہی کمیشن پر اعتراض اٹھایا، کمیشن نے آرٹیکل 209 پر اپنا موقف پہلے اجلاس میں واضح کردیا تھا، واضح کیاتھا کہ کمیشن کی کارروائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سمجھا جائے۔
جواب میں کہا گیا ہےکہ صدر سپریم کورٹ بار نے آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواست دائر کی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ یہ کیس نہ سنے، ذاتی مفادات سے متعلق کیس کوئی جج نہیں سن سکتا۔انکوائری کمیشن کا کہنا ہےکہ کمیشن کو آڈیو لیکس کی انکوائری میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں،کمیشن کو یہ ذمہ داری قانون کے تحت دی گئی ہے، کمیشن آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کرےگا،کمیشن یقین دلاتا ہےکہ فریقین کے اٹھائےگئے اعتراضات کو سنا اور ان پر غور کیا جائےگا، صحافی قیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کمیشن میں پیش ہونےکے لیے تیار ہیں، ججز کا حلف ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فرائض ادا کریں گے۔
جواب میں کہا گیا ہےکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 6 درخواست گزاروں بشمول خواجہ طارق رحیم نے بھی درخواست داخل کی، رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگائے کہ یہ درخواستیں 184/3 کے تحت قابل سماعت نہیں، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل کی سماعت کیے بغیر مقدمہ 8 رکنی بینچ کے سامنے مقرر کیا گیا،8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے قانون پر حکم امتناع جاری کردیا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ عوام کا پیسا بچانے کے لیے اپنا وکیل نہیں کر رہا، درخواست ہے کہ سیکرٹری کے ذریعے کھلی عدالت میں یہ جواب پڑھ کر سنایا جائے، کمیشن عدالت کو یقین دلاتا ہےکہ کارروائی میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں، تاہم چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے آڈیولیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر لارجربینچ تشکیل دیتے ہوئے کمیشن کو کارروائی سے روک دیا ہے۔