وزارت خزانہ نے ماہرمعاشیات عاطف میاں کی طرف سے پاکستان کی معیشت کا گھانا اور سری لنکا کی معیشتوں سے موازنے کو بے جا، غیر ضروری اور غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گھانا اورسری لنکا کی چھوٹی معیشیتوں اورکم آبادی کا پاکستانی معیشت اورآبادی سے تقابل غیر حقیقی اورغیر منطقی ہے۔سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق وزارت خزانہ کے ترجمان نے امریکا میں مقیم ماہر معاشیات عاطف میاں کے اٹھائے گئے نکات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ عاطف میاں کی جانب سے پاکستان کی معیشت کا گھانا اورسری لنکا کی معیشتوں سے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں پرتنقید بے جا اور غیر ضروری ہے، دونوں ممالک کی معیشتوں کا پاکستانی معیشت سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے عاطف میاں نے پاکستان کو ’فیصلہ کن ’، ’جارحانہ ری اسٹرکچرنگ‘ اور دلیرانہ اقدامات کا مشورہ دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ موصوف اس بات سے لاعلم ہیں کہ پاکستان میں معیشت کس طرح چل رہی ہے، ان کی طرف سے پاکستان کی معیشت کا گھانا اور سری لنکا کی معیشتوں سے تقابل بھی بے جا، غیر ضروری اور غیر منطقی ہے کیونکہ گھانا اورسری لنکا کی چھوٹی معیشتوں اورکم آبادی کا پاکستانی معیشت اورآبادی سے تقابل نہیں بنتا۔ترجمان نے بتایا کہ بنیادی طور پر عاطف میاں نے پاکستان کے قرض کا تجزیہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہے جس کا کمرشل بانڈز اورسکوک میں حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے اورجس کی میچورٹی اپریل 2024 میں ہے، باقی ماندہ قرضہ دوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت داروں کا ہے، پاکستان ان کے ساتھ رابطوں میں ہے، ان میں سے کسی نے بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ عاطف ان اصلاحات سے بھی لاعلم ہیں جو پاکستان نے گزشتہ 9 ماہ میں کی ہیں، ان میں مارکیٹ کی بنیاد شرح تبادلہ کا تعین، شرح سود کی ایڈجسٹمنٹ، مالی حالت کوبہتربنانے کے لیے سال کے وسط میں ٹیکسیشن، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کا نفاذ اور مالی خسارہ کی نان مونیٹائزیشن شامل ہیں، یہ تمام اقدامات آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اٹھائے گئے ہیں، ملکی تاریخ میں اس سے قبل پاکستان پر اس طرح کی پیشگی شرائط لاگو نہیں ہوئی تھی۔
مزید بتایا گیا کہ پاکستان نے دلیرانہ کوششوں سے یہ اقدامات کیے ہیں، بدقسمتی سے اس طرح کے اقدامات کے باوجود ابھی تک اسٹاف سطح کامعاہدہ نہیں ہوا اور پاکستان کو نویں جائزہ کے تحت قسط نہیں مل سکی ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ملک معاشی طورپرکھڑا ہے اوراسی طرح کھڑا رہے گا، پاکستان نے ابھی تک فیصلہ کن اور دلیرانہ جامع اقدامات کیے ہیں، ہم معیشت کومستحکم کرنے کے لیے اصلاحات کے راستے پرگامزن رہیں گے۔
ترجمان نے کہاکہ تاریخی لحاظ سے پاکستان خطے کے دیگرممالک کے برعکس کم قیمت پرپیٹرولیم مصنوعات صارفین کوفراہم کرتا چلا آرہا ہے، کسی حکومتی زرتلافی کے بغیر 50 روپے پیٹرولیم لیوی کا نفاذ ہوچکا ہے، اس لیے یہ بات غیردانش مندانہ ہوگی کہ عمومی مہنگائی میں اضافے کے تناظرمیں پیٹرولیم مصنوعات پرمزید ٹیکس لگائے جائیں جن کی قیمت ایک سال میں پہلے سے ڈبل ہوچکی ہے۔
وزارت خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ عاطف میاں نے اپنے مضمون میں پیٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے اورٹیکس عائد نہ کرنے کو نا معقول فیصلہ قراردیا تھا۔
ترجمان نے بتایا کہ کوووڈ-19، روس-یوکرین جنگ اورگزشتہ سال آنے والے بدترین سیلاب سے پاکستان کی معیشت کومشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے، موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے باوجود شرائط توڑنے سے پیدا ہونے والے مسائل اوردیگر ورثے میں ملنے والی مشکلات پرقابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
وزارت خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے 17.5 ارب ڈالر کے خسارے کو کم کر کے 3.2 ارب ڈالرکی سطح پرلایا گیا ہے، پاکستان نے کسی بیرونی قرضے کے بغیر یہ خسارہ کم کیا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت کی استعدادکا اندازہ ہوتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ موصوف پاکستان کو درپیش بے مثال سیاسی مشکلات سے بھی لاعلم ہیں، اس وقت ملک کا سیاسی ماحول پُرسکون اور خوشگوار نہیں ہے، اس طرح کی صورتحال سے ملک کی معیشت کے مضمرات ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ عاطف میاں نے چند روز قبل پاکستانی معیشت کا موازنہ گھانا اور سری لنکا سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دونوں ممالک گزشتہ 2 سالوں کے دوران باضابطہ طور پر دیوالیہ ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایسا نہیں کیا لیکن اس کی اور گھانا کی کرنسی کی قدر میں 50 فیصد جبکہ سری لنکا کی کرنسی کی قدر ایک تہائی کم ہوئی، لہٰذا پاکستان کی کرنسی کی قدر سری لنکا سے بھی زیادہ گری۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گھانا، سری لنکا، بھارت یا بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان 20 سے 25 فیصد کم قمیت پر پیٹرول فروخت کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی حکومت پیداوار اور برآمد کے لیے درکار خام مال کی درآمد پر پابندی لگا رہی ہے۔