ابو_یحیی
ہم دونوں ایک دفعہ پھر تیزی سے چل رہے تھے۔ عرش کی حدود سے نکلتے ہی ایک انتہائی گرم اور حبس زدہ ماحول سے واسطہ پڑا۔ لگتا تھا کہ سورج نو کروڑ میل سے سوا میل کے فاصلے پر آکر دہکنے لگا ہے۔ ہوا بالکل بند تھی۔ لوگ پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھ پر جام کوثر کا اثر تھا وگرنہ اس ماحول میں تو ایک لمحہ گزارنا ناممکن تھا۔ مگر میں دیکھ رہا تھا کہ ان گنت لوگ اسی ماحول میں بدحال گھوم رہے تھے۔ چہروں پر وحشت، آنکھوں میں خوف، بال خاک آلود، جسم پسینے سے شرابور، وجود مٹی سے اٹا ہوا، پاؤں میں چھالے اور ان چھالوں سے رستا ہوا خون اور پانی۔ یاس و ہراس کا یہ منظر میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ ہر طرف افراتفری چھائی ہوئی تھی۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ میری نظریں کسی ایسے شخص کو تلاش کررہی تھیں جسے میں جانتا ہوں۔ پہلی شخصیت جو مجھے نظر آئی وہ میرے اپنے استاد فرحان احمد کی تھی۔ انہوں نے دور سے مجھے دیکھا اور تیزی کے ساتھ میری نگاہوں سے اوجھل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے صالح سے کہا:
’’انھیں روکو! یہ میرے استاد ہیں۔ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
مگر اس نے مجھے ان کی طرف بڑھنے سے روک دیا اورتاسف آمیز لہجے میں بولا:
’’دیکھو عبد اللہ! اپنے استاد کی رسوائی میں اور اضافہ مت کرو۔ اس وقت یہاں کوئی شخص اگر خوار و خراب ہورہا ہے تو سمجھ لو اس کے ساتھ عدل ہوچکا ہے۔ وہ خدائی کسوٹی پر کھوٹا سکہ نکلا، اسی لیے اس حال میں ہے۔‘‘
میں تڑپ کر بولا:
’’مگر ہم نے تو خداپرستی اور آخرت کی سوچ اور اخلاق کی ساری باتیں انہی سے سیکھی تھیں۔‘‘
’’سیکھی ہوں گی‘‘، صالح نے بے پروائی سے جواب دیا۔
’’مگر ان کا علم ان کی شخصیت نہیں بن سکا۔ دیکھو! خدا کے حضور کسی شخص کا فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کے عمل، سیرت اور شخصیت کی بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ علم صرف اس لیے ہوتا ہے کہ شخصیت درست بنیادوں پر تعمیر ہوسکے۔ جب تعمیر ہی غلط ہو تو یہ علم نہیں سانپ ہے:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر من زنی یارے بود
(لم ظاہر تک رہے تو سانپ ہے اور اندر اترجائے تو دوست بن جاتا ہے)
یہی تمھارے استاد کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ ایک اچھے مصنف تھے۔ باتیں بھی اچھی کرتے تھے۔ مگر ان کی سیرت و کردار ان کی باتوں کے مطابق نہ تھی۔ درحقیقت تمھارے استاد سانپ پال رہے تھے۔ آج علم کے ان سانپوں نے انہیں ڈس لیا ہے۔ آج یہاں جب تم لوگوں کو دیکھو گے تو انہیں ان کے ظاہر اور ان کی باتوں کے مطابق نہیں پاؤ گے، بلکہ ان کی شخصیت ٹھیک ویسے ہی نظر آئے گی جیسا کہ وہ اندر سے تھے۔ یاد رکھو! خدا لوگوں کو ان کے ظاہر اور ان کی باتوں پر نہیں پرکھتا۔ وہ عمل اور شخصیت کو دیکھتا ہے۔ خاص کر اہل علم کا احتساب آج کے دن بہت سخت ہوگا۔ جو باتیں دوسرے لوگوں کے لیے عذر بن جائیں گی، عالم کے لیے نہیں بن سکیں گی۔‘‘
’’مگر انہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔‘‘، میں نے ہار نہ مانتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مگر ان کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں مل گیا۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔
’’علم کی غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں، مگر شخصیت اور عمل کی کمزوری آج کے دن اسی حال میں پہنچائے گی جس میں تمھارے استاد مبتلا ہوئے ہیں۔ خیر ابھی تو یہ دن شروع ہوا ہے، دیکھو آخر تک کیا ہوتا ہے۔‘‘
میں صدمے کی حالت میں دیر تک گم سم کھڑا رہا۔ میں ایک یتیم شخص تھا جس کا کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ میرے لیے جو کچھ تھے وہ میرے استاد تھے۔ انہوں نے میری سرپرستی کی، مجھے علم سکھایا، میری شادی کروائی، اور زندگی میں ایک مقصد دیا۔ جو شخص میرے لیے باپ سے زیادہ مقدم تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے ایک شاک (Shock) لگا تھا۔ میں اس کیفیت میں اپنے ماحول سے قطعاً لا تعلق ہوگیا۔
میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جارہے تھے۔ فضا میں شعلوں کے دہکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کرنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے، لڑ جھگڑرہے تھے، الزام تراشی کررہے تھے، آپس میں گتھم گتھا تھے۔
کوئی سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا تھا۔ کوئی چہرہ چھپارہا تھا۔ کوئی شرمندگی اٹھارہا تھا۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرارہا تھا۔ کوئی سینہ کوبی کررہا تھا۔ کوئی خود کو کوس رہا تھا۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراکر ان پر برس رہا تھا۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ قیامت کا دن آگیا اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار تھا۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا۔ جس کے بعد حساب کتاب شروع ہونا تھا اور پورے عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ کردیا جانا تھا۔
مگر میں اس سب سے بے خبر نجانے کتنی دیر تک اسی طرح گم سم کھڑا رہا۔ یکایک میرے بالکل قریب ایک آدمی چلایا:
’’ہائے۔ ۔ ۔ اس سے تو موت اچھی تھی۔ اس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔‘‘
یہ چیخ نما آواز مجھے واپس اپنے ماحول میں لے آئی۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن میں ابتد ا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہوگیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے گردن گھما کر صالح کی طرف دیکھا۔ اس کا چہر ہ ہر قسم کے تأثر سے عاری تھا اور وہ مستقل مجھے دیکھے جارہا تھا۔ میری توجہ اپنی طرف مبذول پاکر وہ بولا:
’’عبد اللہ! تم میدان حشر کے احوال جاننے کے شوق میں اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آئے ہو تو ایسے بہت سے مناظر ابھی تمھیں اور دیکھنے ہوں گے۔ میں تمھیں مزید صدمات سے بچانے کے لیے ابھی سے یہ بات بتارہا ہوں کہ تمھاری بیوی، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے تمھاری ایک بیٹی لیلیٰ اور ایک بیٹا جمشید اسی میدان میں خوار و پریشان موجود ہیں۔‘‘
صالح کی یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے چکر سا آیا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ صالح میرے ساتھ ہی زمین پر خاموش بیٹھ گیا۔
میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر یہاں کسی کو کسی کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کوئی کیوں بیٹھا ہے؟ کیوں کھڑا ہے؟ کیوں لیٹا ہے؟ کوئی کیوں رو رہا ہے؟ کیوں چیخ رہا ہے؟ کیوں ماتم کررہا ہے؟ یہ کسی کا مسئلہ نہیں تھا۔ آج سب کو اپنی ہی پڑی تھی۔ ایسے میں کوئی رک کر مجھ سے میرا غم کیوں پوچھتا؟ لوگ ہمارے پاس سے بھی بے نیازی سے گزرتے چلے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد میں نے صالح سے پوچھا:
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’ظاہر ہے حساب کتاب ہوگا۔ پھر اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات سامنے آئے گی۔‘‘
اس کا جواب دوٹوک تھا۔ پھر وہ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بولا:
’’جن لوگوں نے آج کے دن کی حاضری کو اپنا مسئلہ بنالیا تھا اور وہ اسی کے لیے جیے، چاہے وہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے والے صالحین ہوں یا خدا کے دین کی نصرت کو اپنا مسئلہ بنانے والے اہل ایمان، سب کے سب اس طرح اٹھائے گئے ہیں کہ ان کی نجات کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ان لوگوں نے زندگی میں صرف نیکیاں کمائی تھیں۔ خالق و مخلوق کے حقوق پورے کیے تھے۔ چنانچہ ان کی موت ہی ان کا پروانہ نجات بن کر سامنے آئی تھی اور حشر کے دن انہیں شروع ہی سے عافیت نصیب ہوگئی۔‘‘
’’مگر گناہ تو سب کرتے ہیں۔ تو کیا ان لوگوں نے گناہ نہیں کیے تھے؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’ہاں گناہ انہوں نے بھی کیے تھے، مگر ان کے چھوٹے موٹے گناہ ان کی نیکیوں نے ختم کردیے اور اگر کبھی کسی بڑے گناہ سے دامن آلودہ ہوا تو انھوں نے فوراً توبہ کے آنسوؤں سے ان داغوں کو دھودیا تھا۔ ایسے تمام صاف ستھرے پاکیزہ لوگ اس وقت عرش کے سائے کے نیچے موجود ہیں۔ ان لوگوں کا رسمی حساب کتاب ہوگا جس کے بعد ان کی کامیابی کا اعلان کردیا جائے گا۔
اس کے برعکس جن لوگوں کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا بڑا جرم ہوا جو ایمان ہی کو غیر مؤثر کردے جیسے کفر، شرک، منافقت، قتل، زنا، زنابالجبر ،ارتداد، یتیموں کا مال کھانا، اللہ کی حدود کو پامال کرنا اور اسی نوعیت کے دیگر جرائم وغیرہ، تو میزان عدل میں ایسے لوگوں کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور انہیں جہنم کی سزا سنادی جائے گی۔‘‘، صالح نے قانون کی تفصیلی وضاحت کی۔
’’لیکن انسان تو ان دو انتہاؤں کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ ان کا کیا ہوگا؟‘‘، میں نے سوال کیاتو صالح نے جواب دیا:
’’ہاں ان دو انتہاؤں کے درمیان وہ لوگ ہیں جن کے پاس ایمان اور کچھ نہ کچھ عمل صالح کا سرمایہ بھی ہے، مگر وہ دنیا میں گناہ بھی کرتے رہے اور توبہ بھی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو اپنے گناہوں کی پاداش میں حشر کے دن کی سختی جھیلنی ہوگی، اس کے بعد نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔ آج جو لوگ میدان حشر میں پھنسے ہوئے ہیں وہ یا تو مجرمین ہیں جنہیں آخر کار جہنم میں پھینکا جائے گا یا پھر وہ اہل ایمان ہیں جن کا دامن گناہوں سے داغدار ہے۔ سو جس کے گناہ جتنے زیادہ اور جتنے بڑے ہوں گے آج کے دن اسے اتنا ہی خوار و خراب ہونا ہوگا۔ کم گناہ والوں کو حساب کتاب کے آغاز پر ہی نجات مل جائے گی۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا کی زندگی کے سیکڑوں برس تو گزرچکے ہیں۔ ان لوگوں کو ابتدا میں نجات بھی ملی تو یہ حشر کی سختی دنیا کی پچاس سالہ زندگی کے گناہوں کا نشہ ہرن کرنے کے لیے بہت ہے۔ جبکہ جن کے گناہ زیادہ ہیں ان کو تو نجانے ابھی کتنے ہزار یا لاکھ سال تک اس سخت ترین ماحول کی شدت، سختی اور ہول جھیلنا ہوگا۔‘‘
صالح کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا کہ دنیا میں گناہ کتنے معمولی لگا کرتے تھے، مگر آج یہ کس طرح مصیبت میں ڈھل گئے ہیں۔ کاش لوگ اپنے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھتے اور مستقل توبہ کو اپنا معمول بنالیتے۔ وہ غیبت، چغل خوری، اسراف، نمود و نمائش، الزام و بہتان وغیرہ کو معمولی چیز نہ سمجھتے۔ اللہ اور بندوں کے حقوق کی پامالی کو چھوٹا نہ خیال کرتے، اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور رسولِ کریم کی پیروی کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جہاں ایک گناہ کی تھوڑی سی لذت سیکڑوں برس کی خواری میں بدل چکی ہے۔
پھر میں نے اس سے دریافت کیا:
’’کیا اس وقت کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس کی نجات ہوگی یا نہیں اور ہوگی تو کس طرح ہوگی؟‘‘
صالح نے جواب دیا:
’’یہی اصل مصیبت ہے۔ یہاں کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہے۔ نجات کی کوئی امید ہے یا نہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ اسی لیے رسول اللہ اور دیگر انبیا مسلسل یہ دعا کررہے تھے کہ حساب کتاب شروع ہوجائے۔ اس کے نتیجے میں اہل ایمان کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ مجرمین سے الگ ہوکر حساب کتاب کے بعد نجات پاجائیں گے۔ تم جانتے ہو آج کے دن انفرادی طور پر نہ کسی کے لیے زبان سے کوئی حرف نکالا جاسکتا ہے اور نہ اس کی کوئی گنجائش ہے۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ کی یہ دعا قبول ہوچکی ہے۔ یہ بات خلیفہ رسول ابو بکر صدیق نے تمھیں خود بتائی تھی۔‘‘
’’مگر ابھی تک حساب کتاب تو شروع ہوتا نظر نہیں آتا۔‘‘، میں نے حیرت سے پوچھا تو صالح بولا:
’’دعا قبول ہوئی ہے، مگر اس پر عملدرآمد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہی کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی تک پوری دنیا سے لوگ قبروں سے نکلنے کے بعد یہاں پہنچے ہی نہ ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب لوگ اتنے برسوں میں بھی یہاں تک نہیں آئے؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے کہ آج لوگ ہوائی جہاز، ریلوں، بسوں، اور موٹروں میں بیٹھ کر یہاں تک آئیں گے؟ آج سب پیدل دوڑتے آرہے ہیں۔ اسرافیل کے صور نے لوگوں کو اسی سمت آنے کے لیے مجبور کردیا تھا۔ آج سمندر پاٹ دیے گئے ہیں اور پہاڑ ڈھادیے گئے ہیں۔ اس لیے لوگ سیدھا یہاں آرہے ہیں، مگر ظاہر ہے پیدل آتے ہوئے وقت تو لگے گا۔ البتہ صالحین کے ساتھ فرشتے تھے جو انہیں فوراً یہاں لے آئے۔ بہرحال جب تک حساب کتاب شروع نہیں ہوتا، ہم یہاں موجود لوگوں کے احوال دیکھ لیتے ہیں۔ ویسے شاید تم اسی مقصد کے لیے یہاں آئے تھے۔‘‘
صالح نے یہ الفاظ کہے اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر میرا ہاتھ تھامے آگے بڑھنے لگا۔ اس وقت شدید گرمی سے چہرے تپ رہے تھے۔ ہر طرف گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ لوگ گروہوں کی شکل میں اور تنہا ادھر سے ادھر پریشان گھوم رہے تھے۔ میری متلاشی نظریں اپنے کسی شناسا کو تلاش کررہی تھیں، مگر کہیںکوئی شناسا صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اچانک ایک طرف سے ایک لڑکی نمودار ہوئی اور قبل اس کے کہ میں اس کی شکل دیکھ پاتا وہ میرے قدموں پر گرکر بے بسی سے رونے لگی۔ میں نے قدرے پریشانی سے صالح کی سمت دیکھا۔
اس نے سپاٹ لہجے میں لڑکی سے کہا:
’’کھڑی ہوجاؤ!‘‘
اس کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ لڑکی بھی سہم کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ یہ چہرہ خوف، اندیشے اور غم کے سایوں سے سیاہ پڑچکا تھا۔ چہرے اور بالوں پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔ پیاس کے مارے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور وحشت زدہ آنکھوں میں خوف و دہشت کا رنگ چھایا ہوا تھا۔
کرب کی ایک لہر میرے وجود کے اندر اترگئی۔ میں نے اس چہرے کو جب پہلی دفعہ دیکھا تھا تو بے ساختہ چشم بد دور کہا تھا۔ میدہ شہاب گورا رنگ،کھڑا کھڑا ناک نقشہ، کتابی چہرہ، گلابی ہونٹ،نیلی آنکھیں اور گہرے سیاہ بال۔ خدا نے اس چہرے کو قدرتی حسن سے اس طرح نوازا تھا کہ زیب و زینت کی اسے حاجت نہ تھی۔ مگر آج یہ چہرہ بالکل بدل چکا تھا۔ ماضی کا جمال روزِ حشر کے حزن و ملال کی تہہ میں کہیں دفن ہوچکا تھا۔ سراپا حسرت، سراپا وحشت، سراپا اذیت اور مجسم ندامت یہ وجود کسی اور کا نہیں میرے چہیتے بیٹے جمشید کی بیوی اور اپنی بڑی بہو ھما کا تھا جو حسرت و یاس کی ایک زندہ تصویر بن کر میرے سامنے کھڑی تھی۔
’’ابو جی مجھے بچالیجیے۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ یہاں کا ماحول مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے ساری زندگی کوئی تکلیف نہیں دیکھی، مگر لگتا ہے کہ اب میری زندگی میں کوئی آسانی نہیں آئے گی۔ اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کیجیے۔ آپ اللہ کے بہت محبوب بندے ہیں۔ مجھے بچالیجیے۔ ۔ ۔
یہ کہتے ہوئے ھما ہچکیاں لے کر رونے لگی۔
’’جمشید کہاں ہے؟‘‘، میں نے ڈوبے ہوئے لہجے میں دریافت کیا۔
’’وہ یہیں تھے۔ وہ بھی آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے اور اتنے سارے لوگ ہیں کہ کسی کو ڈھونڈنا ناممکن ہے۔ ان کا حال بھی بہت برا ہے۔ وہ مجھ سے بہت ناراض تھے۔ انہوں نے ملتے ہی مجھے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ تمھاری وجہ سے میں برباد ہوگیا۔ ابو میں بہت بری ہوں۔ میں خود بھی تباہ ہوگئی اور اپنے خاندان کو بھی برباد کردیا۔ پلیز مجھے معاف کردیں اور مجھے بچالیں۔ اللہ کا عذاب بہت خوفناک ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
ھما فریاد کررہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔ میرے دل میں پدری محبت کا جذبہ جوش مارنے لگا۔ وہ بہرحال میری بہو تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، صالح اسی سپاٹ لہجے میں بولا:
’’یہ بات تمھیں دنیا میں سوچنی چاہیے تھی ھما بی بی۔ آج تمھاری عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ مگر یاد ہے دنیا میں تم کیا تھیں؟ تمھیں شاید یاد نہ آئے۔ ۔ ۔ میں یاد دلاتا ہوں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے صالح نے اشارہ کیا اور یکلخت ایک منظر سامنے نظر آنے لگا۔ یہ جمشید اور ھما کا کمرہ تھا۔ مجھے لگا کہ میرے اردگرد کا ماحول غائب ہوچکا ہے اور میں اسی کمرے میں ان دونوں کے ہمراہ موجود ہوں اور براہ راست سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’جمشید اب میں اس ملک میں نہیں رہ سکتی۔ اب ہمیں کسی ویسٹرن کنٹری میں شفٹ ہوجانا چاہیے۔‘‘
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی ھما نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو برش کرتے ہوئے کہا۔ جمشید بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’تم نے سنا جمشید میں نے کیا کہا؟‘‘
’’یس میں نے سن لیا۔ لیکن میرا پورا خاندان یہاں ہے۔ میں انھیں چھوڑ کر کیسے جاؤں؟‘‘
’’بالکل ویسے ہی جیسے تم ان کا گھر چھوڑ کر میرے ساتھ الگ ہوچکے ہو۔‘‘
’’یہاں کی بات اور ہے۔ میں ہفتے میں ایک دفعہ جاکر ان سے مل تو لیتا ہوں۔ دوسرا یہ کہ فارن ٹرپ تو ہم ہر سال کر ہی لیتے ہیں۔ پھر ہمیں باہر شفٹ ہونے کی کیا ضرورت۔‘‘
’’نہیں اب بچے بڑے ہورہے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کی پرورش باہر ہی ہو۔‘‘
’’لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے بچے میرے ماں باپ کی صحبت کا فائدہ اٹھائیں۔ میں تو اپنے ماں باپ کی نیکی کا کوئی حصہ نہیں پاسکا، لیکن کم از کم میری اولاد تو نیک ہو۔‘‘
’’انہی کی صحبت سے تو میں اپنی اولاد کو بچانا چاہتی ہوں۔ میرے ایک بچے کو بھی اپنے ددھیال کی ہوا لگ گئی تو اس کی زندگی خراب ہوجائے گی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی فون کی گھنٹی بجی۔ جمشید نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔ جمشید نے اچھا کہہ کر ریسیور نیچے رکھ دیا اور ھما کو مخاطب کرکے کہا:
’’تمھارے پاپا ہمیں نیچے بلارہے ہیں۔‘‘، پھر ھما کی بات کا جواب دیتے ہوئے بولا:
’’تم آخر میرے ماں باپ کے بارے میں اتنی نیگیٹو کیوں ہو؟ انہوں نے میری خوشی کی خاطر تمھیں بہو کے طور پر قبول کیا۔ حالانکہ تمھارے انداز و اطوار انھیں بالکل پسند نہ تھے۔ تم مجھے لے کر الگ ہوگئیں تب بھی انہوں نے برا نہیں مانا۔ ۔
’’بس بس رہنے دو۔‘‘، ھما تنک کر بولی۔
’’انھیں میرے انداز و اطوار ناپسند تھے۔ مگر تم میرے عشق میں دیوانے ہورہے تھے۔ اس لیے انھوں نے مجبوراً تمھیں مجھ سے شادی کی اجازت دی۔ تم ان سے الگ ہوکر یہاں زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہو۔ پاپا کے بزنس میں شریک ہو۔ کروڑوں میں کھیلتے ہو۔ جمشید مجھ سے شادی کرکے تم سراسر فائدے میں رہے ہو۔ تم نے کوئی نقصان نہیں اٹھایا۔‘‘
’’پتہ نہیں کیوں تمھاری باتیں سن کر کبھی کبھی ابو کی یاد آجاتی ہے کہ نفع نقصان کا فیصلہ آخرت کے دن ہوگا۔‘‘
’’یار یہ فضول مذہبی باتیں ختم کرو۔ مجھے ان سے چڑ آتی ہے۔ کوئی قیامت وغیرہ نہیں آنی۔ لاکھوں برس سے دنیا کا سسٹم ایسے ہی چل رہا ہے:
If you are smart, powerful and wealthy you are the winner. All the others are loosers and idiots. And you know this judgment day is nothing but a rabbish.
ویسے فار یور کائنڈ انفارمیشن، میرے پاپا نے اپنے پیر صاحب سے یہ گارنٹی لے رکھی ہے کہ قیامت میں وہ انہیں بخشوادیں گے۔ ان کو بہت پیسہ دیتے ہیں میرے پاپا۔‘‘
’’ہاں ہم جس طرح ناجائز منافع خوری، قانون کی خلاف ورزی اور دیگرحرام ذرائع سے پیسہ کماتے ہیں، اس کو کہیں تو پاک کرنا ہوگا۔ مجھے سب معلوم ہے۔ تمھارے پاپا اور چودھری مختار صاحب کئی بزنس میں پارٹنر ہیں اور دو نمبر کے ہتھکنڈوں سے پیسہ کماتے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔ ۔ ۔ اتنا ہی حلال حرام کا خیال ہے تو چھوڑدو پاپا کا بزنس۔‘‘
’’بزنس تو چھوڑ دوں، مگر تمھیں کیسے چھوڑوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے بعد جاب کرنے سے نہ تمھارے خرچے پورے ہوں گے اور نہ میں تمھارا لیونگ اسٹینڈرڈ مینٹین کرسکوں گا۔ تمھارے عشق نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ وگرنہ میں جس خاندان سے ہوں وہاں حلال اور حرام ہی سب کچھ ہے۔‘‘
’’اسی لیے اتنی مڈل کلاس زندگی گزار رہے ہیں وہ لوگ۔ اچھا ہوا تم میرے ساتھ آگئے وگرنہ اپنے بھائیوں کی طرح موٹر سائیکل پر گھومتے یا 800 سی سی گاڑی چلاتے اور کسی فلیٹ میں سڑی ہوئی زندگی گزار کر مرجاتے۔‘‘
’’زندگی اچھی گزاریں یا بری، مرنا تو ہمیں ہے۔ پتہ نہیں آخرت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘
’’بے فکر رہو کچھ نہیں ہوگا۔ وہاں بھی ہم ٹھاٹ سے رہیں گے۔ میرے پاپا کے پیر صاحب کے سامنے تو تمھارے اللہ میاں بھی کچھ نہیں بول سکتے۔‘‘
’’کلمۂ کفر تو مت بکو۔ اور اللہ میرا کہاں رہا ہے۔ جب میں اللہ کا نہیں رہا تو وہ میرا کیسے رہے گا۔‘‘
یہ جملہ کہتے ہوئے جمشید کا لہجہ بھرّا گیا اور اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ مگر ھما اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہیں دیکھ سکی۔ اس کا سارا دھیان آئینے کی طرف تھا۔ اب وہ اپنے میک اپ سے فارغ ہوچکی تھی، اس لیے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے اٹھتے ہوئے بولی:
’’اچھا چھوڑو یہ فضول باتیں! نیچے چلو، پاپا انتظار کرہے ہوں گے۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صالح نے دوبارہ اشارہ کیا اور منظر ختم ہوگیا۔ لیکن ساتھ ہی ھما کی ہر امید کو بھی ختم کرگیا۔ صالح نے اسی سفاک اور قاتل لہجے میں سختی کے ساتھ کہا:
۔۔’’تم نے دیکھا! تمھاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔ تو جاؤ ھما بی بی اپنے پیر صاحب کو ڈھونڈو جو تمھیں بخشواسکتے ہیں اور جن کے سامنے اللہ تعالیٰ بھی
صالح نے جملہ تو ادھورا چھوڑدیا، مگر ھما کے الفاظ دہراتے وقت اس کے لہجے میں جو غضب آگیا تھا، اس سے میں خود دہل کر رہ گیا۔ ھما بھی بری طرح خوف زدہ ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ صالح کچھ اور کہتا وہ روتی چیختی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔
اس منظر میں جمشید کو دیکھ کر میری حالت پھر ڈانوا ڈول ہوچکی تھی۔ ظاہر ہے کہ ھما کی طرح وہ بھی اس سختیوں بھرے میدان میں پریشان حال پھر رہا ہوگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جمشید اسی حال میں میرے سامنے آگیا تو میں کیا کروں گا۔ میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ صالح نے میری کمر تھپتھپا کر کہا:
’’آؤ چلتے ہیں۔‘‘
نجانے اس تھپکی میں کیا بات تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اوپر طاری ہونے والی پریشانی کی کیفیت بہت ہلکی ہوگئی ہے۔ میں قدرے بشاشت سے اس کے ساتھ چلنے لگا۔ اردگرد پھر وہی پریشان اور وحشت زدہ لوگوں کی ہلچل تھی۔ ہم کچھ ہی دور آگے چلے تھے کہ سامنے سے چودھری مختار صاحب آتے نظر آئے۔ انہوں نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا اور میری ہی طرف آرہے تھے۔ چودھری صاحب میرے بیٹے جمشید کے سسر کے بزنس پارٹنر تھے۔ اس حیثیت میں میری ان سے رسمی واقفیت تھی۔ میرے قریب آتے ہی انہوں نے مجھ سے گلے ملنے کی کوشش کی جسے صالح نے ہاتھ آگے بڑھا کر یہ کہتے ہوئے ناکام بنادیا :
’’دور رہ کر بات کرو۔‘‘
اس کا لب و لہجہ اتنا درشت تھا کہ مجھے بھی اس سے اجنبیت محسوس ہونے لگی۔ اپنی اس رسوائی کے باوجود چودھری صاحب کے جوش میں کمی نہ آئی۔ وہ کہنے لگے:
’’مجھے یقین تھا عبد اللہ صاحب! آپ مجھے ڈھونڈتے ہوئے ضرور آئیں گے۔ آپ کو یاد ہے عبداللہ صاحب! میں نے ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس میں آپ بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی میں غریبوں مسکینوں کی مدد کیا کرتا تھا۔‘‘
’’مجھے یاد ہے چودھری صاحب۔‘‘، میں نے دھیرے سے انہیں جواب دیا۔
’’بس تو اب آپ میری سفارش کردیجیے۔ میں بہت دیر سے پریشان گھوم رہا ہوں۔ یہاں تو جس کو دیکھو اپنی ہی پڑی ہے۔ نہ کوئی کچھ بتاتا ہے نہ سیدھے منہ بات کرتا ہے۔‘‘
یہ آخری بات کہتے ہوئے انہوں نے بے اختیار صالح کی طرف دیکھا۔ میں نے بھی گردن گھماکر صالح کی طرف دیکھا۔ اس نے لمحے بھر کے لیے مجھے دیکھا اور پھر چودھری صاحب کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بولا:
’’آپ نے مسجد ضرور بنوائی تھی، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں بلکہ اپنی نیک نامی کے لیے۔ جب پیسے اللہ کو دیے جاتے ہیں تو گردن جھکی ہوتی ہے، ہاتھ بندھے ہوتے ہیں، لہجہ پست ہوتا ہے اور دل میں عاجزی اور خوف ہوتا ہے۔ مگر آپ کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ آپ اپنا نام چاہتے تھے۔ سو دنیا میں نام ہوگیا۔ اب تو آپ کو حساب دینا ہوگا کہ یہ پیسہ کمایا کس طرح تھا۔
اور ہاں۔ ۔ ۔ اچھے کاموں پر تو آپ کبھی کبھار ہی پیسے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ملک کی ایک مشہور اداکارہ کا قرب خریدنے کے لیے آپ نے کروڑوں روپے خرچ کردیے تھے۔ آپ کے کھاتے میں زنا کا گناہ ہے۔ ایک دفعہ کا نہیں بلکہ بار بار کا گناہ۔ الگ الگ عورتوں کے ساتھ زنا کا گناہ۔ ملک کی مشہور اداکاراؤں اور فیشن ماڈلز کے ساتھ آپ کے تعلقات تھے۔ خرچ کو تو چھوڑیے آپ کی تو آمدنی میں بھی رزق حرام کی وافر ملاوٹ تھی۔ آپ ملاوٹ کرتے تھے۔ ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ لوگوں کو حد سے زیادہ منافع لے کر چیزیں فروخت کرتے تھے۔ بجلی چوری، دھوکہ دہی، ملازمین کے حقوق میں ڈنڈی مارنا، یہ آپ کے کاروبار کے بنیادی اصول تھے۔ اپنی ترقی کی انتہا پر پہنچ کر آپ نے ایک میڈیا گروپ بنالیا تھا جس کے ایک ٹی وی چینل پر آپ لوگوں کو خوش کرنے والے مذہبی پروگرام دکھاتے اور دوسرے پر آرٹ اور انٹر ٹینمنٹ کے نام پر معاشرے میں حیا باختہ رویے عام کرتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ دنیا میں کامیابی کا راز لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ کاش آپ یہ جان لیتے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا راز لوگوں کو نہیں خدا کو خوش کرنا ہے۔‘‘
صالح بے تکان بول رہا تھا اور الفاظ اس کی زبان سے تیر بن کر نکل رہے تھے۔ ان کا سامنا کرنا چودھری صاحب کے لیے ممکن نہ تھا، مگر ان کے لیے کوئی جائے فرار نہ تھی۔ وہ گردن جھکائے سنتے رہے۔ صالح کے لب و لہجے کی سختی نے چودھری صاحب کے چہرے پر تاریکی پھیلادی تھی۔ مگر اس نے اسی پر بس نہیں کیا اور کہنے لگا:
’’ذرا پیچھے دیکھیے چودھری صاحب آپ کے پیچھے آپ کی محبوبہ بھی کھڑی ہے۔‘‘
چودھری صاحب گھبراکر پیچھے پلٹے۔ میں نے بھی نظر اٹھاکر چودھری صاحب کے پیچھے دیکھا۔ سامنے ایک انتہائی مکروہ شکل و صورت کی بوڑھی عورت کھڑی تھی جس کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھ رہے تھے۔ صالح نے میری پشت پر ہاتھ رکھا جس کے بعد مجھے یہ ناقابل برداشت بدبو آنا بند ہوگئی، لیکن چودھری صاحب کے لیے یہ بدبو ابھی تک باقی تھی۔ وہ بدشکل بڑھیا چودھری چودھری کہتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس بڑھیا کے قرب سے خوفزدہ ہوکر چودھری صاحب پیچھے ہٹنے لگے اور پھر بے اختیار بھاگنے لگے۔ وہ عورت یا بلا جو کچھ بھی تھی ان کے پیچھے ہاتھ پھیلاکر دوڑنے لگی۔
’’یہ عورت کون تھی؟‘‘، ان کے دور جانے کے بعد میں نے صالح سے پوچھا۔
’’ یہ چودھری صاحب کی وہ داشتہ اور تمھارے زمانے کی مشہور اداکارہ، رقاصہ اور ماڈل چمپا تھی۔‘‘، صالح نے اس بدشکل عورت کا تعارف کرایا تو میں نے حیرت سے کہا:
’’چمپا؟ مگر وہ تو بہت خوبصورت تھی اور لوگ اُس کے حسن کی مثالیں دیا کرتے تھے۔‘‘
’’ہاں مثالیں دینے کے علاوہ اسے اپنا آئیڈیل بھی بناتے تھے۔ اب دیکھ لو لوگوں کے اس آئیڈیل کی شکل کیسی ہوچکی ہے۔ یہ عورت اپنے بھڑکیلے اور نیم عریاں رقصوں سے معاشرے میں فحاشی پھیلاتی تھی۔ اب خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ جن دلوں پر راج کرتی تھی، جہنم میں انہی لوگوں پر اسے عذاب بناکر مسلط کردیا جائے۔‘‘، صالح نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ میرے زمانے میں فحاشی شاید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ ٹیلوژن نے گھر گھر اس طرح کی اداکاراؤں کے جلوے بکھیردیے تھے۔ اس دور کے تمام معاشروں نے فحاشی اور عریانی پھیلانے والی ایسی خواتین کو عزت کے بلند ترین مقام پر بٹھادیا تھا۔ فلمی اداروں اور ٹی وی چینلز کے مالکان کے نزدیک وہ عورتیں مال کمانے کا سب سے سستا اور آسان ذریعہ تھیں جن کے فحش رقصوں، دلربا اداؤں اور کم لباسی کو بیچ کر یہ لوگ اپنی دولت میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ نوجوان ان کے دیوانے تھے اور اپنی ہونے والی بیویوں میں ان کی صورتیں اور نخرے تلاش کرتے تھے۔ لڑکیاں انہی کے انداز و لباس کی کاپی کرکے خود کو سنوارا کرتی تھیں۔ انہی کی وجہ سے شریف مگر عام شکل و صورت والی کتنی ہی لڑکیاں معاشرے میں بے وقعت ہوگئی تھیں۔ ان میں سے کتنی تھیں جو اپنے آنگن میں بہاروں کی راہ تکتے تکتے سفید بالوں کی خزاں رت تک جاپہنچتیں اور کتنی تھیں جو معاشرے کی ناقدری کے داغ کو اپنی شرافت کی چادر میں چھپائے دنیا سے رخصت ہوجاتی تھیں۔
میرے چہرے پر دکھ کے آثار واضح تھے۔ یہ آثار صالح نے پڑھ لیے تھے۔ وہ میرا ہاتھ تھامے خاموشی سے ایک طرف بڑھنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعدایک جگہ ٹھہر کر بولا:
’’ خدا نے تمھارے دکھوں کو دور کرنے کا ایک انتظام کیا ہے، مگر بہتر ہوگا کہ اسے دیکھنے سے قبل گزری ہوئی دنیا کا یہ منظر بھی دیکھ لو۔‘‘
اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ میرے سامنے ایک منظر فلم اسکرین کی طرح چلنے لگا۔ مجھے لگا کہ میں اس منظر کا ایک حصہ ہوں اور بیان ہوئے بغیر بھی ہر حقیقت سمجھ رہا ہوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبح کی روشنی کھڑکی پر پڑے پردوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہونے لگی تھی۔ کالج جانے کا وقت ہورہا تھا، مگر شائستہ کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ اس سردی میں بستر سے نکلے اور کالج جانے کی تیاری کرے۔ وہ عام طور پر فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر مطالعہ کرتی تھی اور پھر کالج کی تیاری، مگر آج وہ نماز پڑھ کر دوبارہ بستر میں لیٹ گئی تھی۔ کل رات ہی سے اس کی طبیعت ناساز تھی۔
’’نہیں! مجھے کالج جانا ہوگا۔ ورنہ اسٹوڈنٹس کا بہت نقصان ہوگا۔ ۔ ۔ اور پھر امی ابو کے لیے ناشتہ بھی تو بنانا ہے۔‘‘
اس نے دل میں سوچا اور ہمت کرکے بستر سے اٹھ گئی۔ دھیرے سے چلتے ہوئے وہ برابر والے کمرے کی طرف گئی جو اس کے والدین کا تھا۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھول کر دیکھا۔ وہ دونوں گہری نیند سورہے تھے۔ اس کے چہرے پر ایک اطمینان بخش مسکراہٹ آگئی۔
شائستہ نے اپنی ساری زندگی اپنے گھرانے کے نام کردی تھی۔ اس کے والد اس کے بچپن ہی میں معذور ہوگئے تھے۔ وہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ والدہ نے سلائی کرکے بمشکل تمام انہیں پڑھایا تھا۔ تعلیم مکمل کرکے اس نے پہلے اسکول اور پھر ایک پرائیوٹ کالج میں پڑھانا شروع کردیا۔ وہ اس کے خواب دیکھنے کے دن تھے۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی، لیکن نوجوانی خود ایک حسن ہوتی ہے۔ مگر اس کی زندگی میں نوجوانی کا مفہوم بس ایک ذمہ داری تھا جس میں خوابوں اور خواہشوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ گھر کا خرچہ، والد کا علاج، مکان کا کرایہ اور چھوٹی بہنوں کی تعلیم۔ دونوں چھوٹی بہنیں خوش شکل تھیں۔ بڑی ہوئیں تو آنے والے ہر رشتے کا رخ انہی کی طرف تھا۔ شائستہ راہ کی دیوار نہیں بنی اور خوشی خوشی بہنوں کو ان کے گھر آباد کردیا۔ یہ ذمہ داریاں پوری کرتے کرتے اس کی جوانی ڈھلتی چلی گئی۔ اور اب وہ اپنے بوڑھے والدین کا بوجھ اٹھانے کے لیے تنہا رہ گئی تھی۔
ان حالات میں اس کا سہارا خدا کی ذات تھی۔ اسے خدا سے بہت شدید محبت تھی۔ اتنی محبت کہ زندگی کی کسی محرومی نے اس کے اندر تلخی نہیں آنے دی۔ وہ نماز روزے کی پابند تو بچپن سے تھی، مگر خدا کی محبت کی یہ مٹھاس اسے اس کے روحانی استاد عبداللہ صاحب کی کتابیں پڑھ کر ملی تھی۔ ۔ ۔ اور اب یہ اس کی زندگی کا مشن تھا کہ وہ خدا کی بندگی اور محبت کی یہ مٹھاس اپنے نوجوان طلبا تک منتقل کرے۔ وہ ایک بہترین استاد تھی اور اس کے طلبا اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کی باتیں ہمیشہ توجہ سے سنتے اور شائستہ شوق سے انھیں پڑھاتی تھی۔
مگر آج نجانے کیوں اس کا دل بہت اداس تھا۔ شاید طبیعت کی خرابی کا اثر تھا کہ وہ ڈپریشن کی کیفیت میں تھی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ آئینے کے سامنے کھڑی کالج جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کو غور سے دیکھا۔ ڈھلتی جوانی کے سارے اثرات اب ظاہر ہورہے تھے۔ وہ ایک کرب کے ساتھ مسکرائی اور خود کو مخاطب کرکے دھیرے سے بڑبڑائی:
’’شائستہ! تم ہار گئیں۔ تمھارے حصے میں تنہائیوں کے سوا کچھ نہیں آیا؟‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید یہ اس کا اعتراف شکست تھا۔ مگر اسی لمحے استاد عبداللہ کی ایک بات اس کے کانوں میں گونجنے لگی:
’’جو خدا سے سودا کرتا ہے وہ کبھی نقصان نہیں اٹھاتا۔‘‘
ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے آنکھیں کھولیں اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی:
’’دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ دیکھ لیں گے۔ ۔ ۔ اب وقت ہی کتنا بچا ہے۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منظر ختم ہوگیا۔ میں نے صالح کی سمت دیکھ کر کہا:
’’میں تو اس لڑکی کو نہیں جانتا۔‘‘
’’اب جان لوگے۔ ویسے تم جو کچھ لکھتے تھے، وہ بہت دور تک جاتا تھا۔‘‘
صالح نے جواب دیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ تھامے ایک سمت آگے بڑھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ویسے ہی سخت گیر فرشتے نظر آئے جیسے عرش کی سمت عام لوگوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کھڑے تھے۔ مگر صالح کو دیکھ کر انہوں نے ہمارا راستہ چھوڑدیا۔ ذرا دور چل کر ہمارے سامنے ایک دروازہ آگیا۔ صالح نے دروازہ کھولا اور میرا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوگیا۔ یہ دروازہ ایک دوسری دنیا کا دروازہ تھا۔ کیونکہ اس کے دوسری طرف حشر کے پریشان کن ماحول کے برعکس منظر پھیلا ہوا تھا۔ میں بے اختیار بولا:
’’صالح! ہم واپس نبیوں کے کیمپوں کی طرف تو نہیں آگئے؟‘‘
اس نے مسکراکر کہا:
’’ہاں۔ ۔ ۔ تمھار ادکھ تو یہیں آکر دور ہوسکتا ہے۔‘‘
ہم چلتے ہوئے ایک شاندار خیمے کے قریب پہنچے۔ اس کے دروازے پر ایک انتہائی باوقار اور پرنور چہرے والے ایک صاحب کھڑے تھے۔ یہ میرے لیے بالکل اجنبی تھے۔ قریب پہنچ کر صالح نے ان سے میرا تعارف کرایا:
’’یہ عبد اللہ ہیں۔ محمد رسول اللہ کی امت کے آخری دور کے امتی۔ اور آپ نحور ہیں، یرمیاہ نبی کے انتہائی قریبی ساتھی۔ نحور آپ انہی سے ملنا چاہ رہے تھے نا؟‘‘
یہ ایک عظیم پیغمبر کے صحابی کا مجھ سے تعارف بھی تھا اور یہ وضاحت بھی کہ میں یہاں کیوں موجود ہوں۔
میں نے نحور سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، لیکن انھو ںنے پرجوش انداز میں مجھے اپنے گلے سے لگالیا۔ میں نے اسی حالت میں ان سے کہا:
’’یرمیاہ نبی سے ملاقات کا شرف تو مجھے ابھی تک حاصل نہیں ہوا لیکن آپ سے ملنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ یرمیاہ نبی کے حالات اور زندگی میں میرے لیے ہمیشہ بڑی رہنمائی رہی۔ مجھے ان سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میرے ذہن میں بنی اسرائیل کے اس عظیم پیغمبر کی زندگی گھوم رہی تھی۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل بدترین اخلاقی انحراف کا شکار تھے اور اسی بنا پر اپنے زمانے کی سپر پاور عراق کے حکمران بخت نصرکے ہاتھوں سیاسی مغلوبیت کے خدائی عذاب میں مبتلا ہوچکے تھے۔ مگر ان کے لیڈروں نے قوم کی اصلاح کرنے کے بجائے ان کے ہاں سیاسی غلبے کی سوچ عام کردی۔ یرمیاہ نبی نے بنی اسرائیل کو ان کی اخلاقی اور ایمانی گمراہیوں پر متنبہ کیا اور انھیں سمجھایا کہ وقت کی سپر پاور سے ٹکرانے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔ مگر ان کی قوم نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر بخت نصر کے خلاف بغاوت کردی۔ اس کے بعد بخت نصر عذاب الٰہی بن کر نازل ہوا اور اس نے یروشلم (بیت المقدس) کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ چھ لاکھ یہودی قتل ہوئے اور چھ لاکھ کو وہ غلام بناکر اپنے ساتھ لے گیا۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ نحور نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’انشاء اللہ ان سے بھی جلد ملاقات ہوجائے گی۔ مگر سردست تو میں آپ کو کسی اور سے ملوانا چاہتا ہوں۔‘‘، یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے الگ ہوئے اور خیمے کی طرف رخ کرکے کسی کو آواز دی:
’’ذرا باہر آنا! دیکھو تو تم سے کون ملنے آیا ہے؟‘‘
نحور کی آواز کے ساتھ ہی ایک لڑکی خیمے سے نکل کر ان کے برابر آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ لڑکی اپنے حلیے سے کوئی شہزادی اور شکل و صورت میں پرستان کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ اس لڑکی نے گردن جھکاکر مجھے سلام کیا اور مجھے مخاطب کرکے کہا:
’’آپ مجھے نہیں جانتے۔ مگر میرے لیے آپ میرے استاد ہیں اور اس رشتے سے میں آپ کی روحانی اولاد ہوں۔ میرا نام شائستہ ہے۔ گمراہی کے اندھیروں میں خدا کے سچے دین کی روشنی میں نے آپ کے ذریعے سے پائی تھی۔ خدا سے میرا تعارف آپ نے کرایا تھا۔ خدا کے ساتھ انسان کا اصل تعلق کیا ہونا چاہیے، یہ میں نے آپ ہی سے سیکھا تھا۔ آج دیکھیے! خدا نے مجھ پر احسان کیا اور اب میں ایک عظیم نبی کے صحابی کی بیوی بننے جارہی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر قبل صالح نے اسی لڑکی کو مجھے دکھایا تھا۔ مگر اب اس کی حالت میں جو انقلاب آچکا تھا اسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ لیکن اسے اس طرح دیکھ کر مجھے جتنی خوشی ہوئی، اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے شائستہ سے کہا:
’’میری طرف سے آپ دونوں دلی مبارکباد قبول کیجیے۔ امید ہے کہ آپ مجھے اپنی شادی میں بھی یاد رکھیں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں۔ آپ کو تو بلانے کا مقصد ہی نحور کو یہ بتانا تھا کہ میرے میکے والے کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر تو آپ نے غلط شخص کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
میں نے فوراً جواب دیا۔ پھر اپنا رخ نحورکی طرف کرتے ہوئے کہا:
’’ لیکن شائستہ کی بات بالکل درست ہے۔ ان کے میکے کے لوگ معمولی نہیں۔ اور ہوبھی کیسے سکتے ہیں۔ شائستہ امت محمدیہ میں سے ہیں۔ نبی عربی کی نسبت کے بعد ان کا میکہ معمولی نہیں رہا۔‘‘
اس موقع پر صالح نے مداخلت کی اور کہا:
’’آپ لوگوں کی مرتبہ و منصب کی اس بحث کا فیصلہ بعد میں ہوتا رہے گا۔ سر دست مجھے عبداللہ کو واپس لے کر جانا ہے۔ اس لیے ہمیں اجازت دیجیے۔‘‘
نحور اور شائستہ سے اجازت لے کر ہم دونوں وہاں سے رخصت ہوگئے۔واپسی پر صالح مجھ سے بولا:
’’ہوگیا نا تمھارے دکھ کا مداوا؟‘‘
میں نے خدا کی اپنے بندوں پر عنایات کا جو مشاہدہ ابھی کیا تھا اس نے میری قوت گویائی سلب کرلی تھی۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ یہ لڑکی اپنے صبر کی وجہ سے اس مقام تک پہنچی ہے۔ خدا نے اس لڑکی کو سخت حالات اور معمولی شکل و صورت کے ساتھ آزمایا تھا۔ مگر اس نے محروم ہونے کے باوجود صبر، شکر اور سچی خدا پرستی کی راہ اختیار کی تھی۔ اور آج تم نے دیکھ لیا کہ جو پچھلی دنیا میں پانے سے محروم رہ گئے، ان کا صبر آج انھیں کس بدلے کا مستحق بنارہا ہے۔‘‘
میں چلتے چلتے رکا۔ اپنی نظریں اٹھاکر آسمان کو دیکھا، آسمان والے کو دیکھا اور پھر اپنی گردن جھکالی۔