مولانا وحید الدین خان کی کتاب راز حیات سے اقتباس
باٹا شوز کمپنی،باٹاکے نام پر ہے۔یہ خاندان ابتدا میں چیکوسلواکیا میں رہتا تھا۔١٦٢٠ء میں انہوں نے جوتا بنانے کا کام شروع کیا۔ٹامس باٹا سینئر)موجودہ باٹا کے والد( نے١٩٢٥ ء میں پہلی بار جوتے کا کارخانہ بنایا۔ٹامس باٹا سینئر اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں اڑ رہے تھے کہ ان کا جہاز گہرے کہر میں پھنس کر گر گیا۔اسی وقت وہ جل کر مر گئے۔ اس کے بعد سے ٹامس باٹا جونیئر باٹا لمیٹڈ کے صدر ہیں۔ ان کی عمر اس وقت68سال ہے۔
باٹا کمپنی کا کاروبار اس وقت١١٤ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ پچھلے سال اس کمپنی نے315ملین جوڑے جوتے ساری دنیا میں فروخت کیے۔ اس کمپنی کا سب سے بڑا کاروبار کینیڈا میں ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر ہندوستان میں ہے۔باٹا کمپنی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جوتا ساز ادارہ ہے۔اس کے براہ راست ملازمین کی تعداد مجموعی طور پر تقریباً90ہزار ہے۔بالواسطہ کارکنوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
مسٹر ٹامس باٹا جونیئر1983ء میں چالیسویں بار ہندوستان آئے۔اخباری نمائندے نے ایک ملاقات میں ان سے سوال کیا:آپ کی کامیابی کا واحد سب سے بڑا عامل کیا ہے جس نے آپ کو موجودہ کامیابی تک پہنچایا۔ مسٹر باٹا نے جواب دیا کہ ہم ہر قسم کے جوتے بناتے ہیں۔سستے بھی اور انتہائی قیمتی بھی۔ ہم ہر خریدار کی ضرورت مکمل طور پر پوری کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے خریداروں کا اتنا زیادہ لحاظ کرتے ہیں جتنا کوئی بھی نہیں کرتا۔
باٹا کی جوتا کمپنی کی عظیم کامیابی یہ سبق دے رہی ہے کہ اگر تم اپنے لیے لینا چاہتے ہو تو دوسروں کو دینے کی کوشش کرو۔ کیونکہ دوسروں کو دے کر ہی اس دنیا میں تم اپنے لیے پا سکتے ہو۔