پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (PAEC) کے چیئرمین ڈاکٹر راجہ علی رضا انور نے ویانا، آسٹریا میں جاری 69ویں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی جنرل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کم کاربن اخراج کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے شدید متاثر ہے، اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان پائیدار ترقی کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمال کو فروغ دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں چھ ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں، جن کی مشترکہ پیداواری صلاحیت 3530 میگاواٹ ہے، اور یہ بجلی کا ایک قابلِ ذکر حصہ کم کاربن ذرائع سے فراہم کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر راجہ علی رضا انور کے مطابق، گزشتہ برس ایٹمی توانائی نے پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں 18.3 فیصد حصہ ڈالا، جو کم کاربن توانائی کے کل 34 فیصد کے مساوی ہے۔ اس توانائی کی بدولت ملک میں تقریباً 1.5 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 1200 میگاواٹ کا نیا نیوکلیئر پاور پلانٹ "سی-5” زیر تعمیر ہے، جو 2030 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ چیئرمین پی اے ای سی نے پاکستان کی جانب سے نیوکلیئر توانائی کے محفوظ، شفاف اور بین الاقوامی معیار کے مطابق استعمال کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس 108 ری ایکٹر-سال کا محفوظ تجربہ موجود ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماحولیات کے لحاظ سے کمزور ممالک کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تک کھلی اور منصفانہ رسائی ہونی چاہیے تاکہ وہ بھی پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کر سکیں۔
آخر میں، چیئرمین پی اے ای سی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان آئی اے ای اے اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے، تاکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مشترکہ کوششوں کو مؤثر بنایا جا سکے۔