فلپ مورس (پاکستان) لمیٹڈ (PMPKL) نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور قانونی کاروبار کو نقصان پہنچانے والی غیر قانونی سگریٹوں کی بڑھتی ہوئی تجارت پر قابو پانے کے لیے ریٹیل اور ڈسٹری بیوشن سطح پر ہدفی کارروائیاں کی جائیں
صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے فلپ مورس (پاکستان) لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ایکسٹرنل افیئرز، خُرم قمر نے کہا کہ پاکستان کی سگریٹ مارکیٹ کا 57 فیصد سے زیادہ اب غیر قانونی سگریٹوں پر مشتمل ہے، جس سے قانون پر عمل کرنے والے مینوفیکچررز کے لیے غیر مسابقتی ماحول پیدا ہو رہا ہے اور انڈسٹری کی شفافیت متاثر ہو رہی ہے۔
خُرم قمر نے اس بات پر زور دیا کہ سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے حکام کی کارروائیوں کو دیرپا بنانے کی ضرورت ہے۔ وسیع ہوئے علاقوں میں الگ الگ چھاپے مارنے سے غیر قانونی صنعت کار متاثر نہیں ہوتے اس کے برعکس مخصوص علاقوں اور ریٹیلرز کو ہدف بنایا جائے تو دیرپا نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس انداز کی کارروائی سے ان علاقوں سے غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کا خاتمہ ممکن ہے جس کا اثر نہ صرف ان ریٹیلرز پر ہوگا جو غیر قانونی سگریٹ فروخت کرتے ہیں بلکہ مینوفیکچررز بھی زد میں آئیں گے۔
خُرم قمر نے کہا کہ چھاپوں میں شدت لانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھر کے ریٹیلرز کو یہ احساس ہو کہ غیر قانونی سگریٹ بیچنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ”غیر قانونی سگریٹوں کی فروخت ایک معمول بن چکی ہے جہاں ریٹیلرز بلا جھجک ایسے سگریٹ رکھتے ہیں جن پر گرافیکل ہیلتھ وارننگ یا ٹریک اینڈ ٹریس اسٹامپس نہیں ہوتے، معیشت اور دستاویزی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اس مجرمانہ فعل اور خلاف ورزی کی عام روایت کو ختم کرنا ہوگا۔”
انہوں نے کہا ”یہ صرف فلپ مورس پاکستان لمیٹڈ کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی معیشت کا چیلنج ہے کیونکہ غیر قانونی تجارت معیشت کو سالانہ 310 ارب روپے (تقریباً ایک ارب ڈالر) کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ خطیر رقم انسانی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی ہے مگر اس کا فائدہ ٹیکس گزاروں کے بجائے غیرقانونی تجارت کرنے والوں کو پہنچ رہا ہے جو کم از کم قیمت سے بھی کم پر سگریٹ بیچتے ہیں اور ہیلتھ وارننگ کو نظر انداز کرکے صحت عامہ کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان مشکلات کے باوجودفلپ مورس پاکستان لمیٹڈ، پاکستان کی باضابطہ معیشت میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔ ملک میں کام کرنے والی 52 تمباکو کمپنیوں میں سے صرف دو قانونی کمپنیاں، جن فلپ مورس بھی شامل ہے یہ دونوں کمپنیاں تمباکو سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں میں تقریباً 98 فیصد جمع کراتی ہیں۔
خُرم قمر نے حکومت کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا خیرمقدم کیا لیکن اس پر زور دیا کہ اس کا مؤثر اور مکمل نفاذ اب بھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلپ مورس پاکستان کے ایل ان اولین کمپنیوں میں شامل ہے جس نے اپنے تمام آپریشنز میں ٹریک اینڈ ٹریس کو مکمل طور پر نصب اور نافذ کیا، لیکن تمباکو کمپنیوں پر وسیع پیمانے پر اس پر عملدرآمد تاحال کمزور ہے۔ پی ایم پی کے ایل نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر غیر قانونی تجارت کے خلاف کام کرے گی۔
خرم قمر نے کہا کہ صرف مضبوط اور مسلسل کارروائی ہی غیر قانونی ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے خلاف مارکیٹ کا توازن بحال کر سکتی ہے، کھوئے ہوئے اربوں روپے کے محصولات کو بچا سکتی ہے اور پاکستان کے معاشی مستقبل کو مضبوط بنا سکتی ہے۔